وہ جب نظریں ملا کر بولتے ہیں
وہ جب نظریں ملا کر بولتے ہیں
تو بت اللہ اکبر بولتے ہیں
کبھی خاموش جو ہونے لگا ہوں
تو وہ خوابوں میں آ کر بولتے ہیں
انہیں دیکھوں تو کیسے کیسے جذبے
مری آنکھوں کے اندر بولتے ہیں
ہوائیں ناچتی ہیں میرے سر پر
مرے خوں میں سمندر بولتے ہیں
میں صدیوں کے تفاخر کی زباں ہوں
زمانے میرے اندر بولتے ہیں
یہ کیسا شہر ہے مظلوم چپ ہیں
مگر ظالم برابر بولتے ہیں
تقدس مہر بن جائے تو اکبرؔ
پھر ایسے میں ابوذر بولتے ہیں