عین عرفان کی غزل

    حادثہ کون سا ہوا پہلے

    حادثہ کون سا ہوا پہلے رات آئی کہ دن ڈھلا پہلے اب میں پانی تلاش کرتا ہوں بھوک تھی میرا مسئلہ پہلے خواب تھے میری دسترس میں دو میں نے دیکھا تھا دوسرا پہلے اب تو وہ بھی نظر نہیں آتا دکھ رہا تھا جو راستہ پہلے اب تو یہ بھی قدیم لگتا ہے کس قدر شہر تھا نیا پہلے اس سے پہلے کہ ٹوٹتی ...

    مزید پڑھیے

    اک سایہ میرے جیسا ہے

    اک سایہ میرے جیسا ہے جو میرا پیچھا کرتا ہے اب شور سے عاجز سناٹا کانوں میں باتیں کرتا ہے اک موڑ ہے رستے کے آگے اس موڑ کے آگے رستہ ہے میں ایک ٹھکانہ ڈھونڈتا ہوں جو صحرا ہے نہ ہی دریا ہے اک خواب کی وحشت ہے جس میں خود کو ہی مرتے دیکھا ہے یہ قصہ جھوٹ سہی لیکن سننے میں اچھا لگتا ہے

    مزید پڑھیے

    قلب کی بنجر زمیں پر خواہشیں بوتے ہوئے

    قلب کی بنجر زمیں پر خواہشیں بوتے ہوئے خود کو اکثر دیکھتا ہوں خواب میں روتے ہوئے دشت ویراں کا سفر ہے اور نظر کے سامنے معجزے در معجزے در معجزے ہوتے ہوئے گامزن ہیں ہم مسلسل اجنبی منزل کی اور زندگی کی آرزو میں زندگی کھوتے ہوئے کل مرے ہم زاد نے مجھ سے کیا دل کش سوال کس کو دیتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    رات اک حادثہ ہوا مجھ میں

    رات اک حادثہ ہوا مجھ میں ایک دروازہ سا کھلا مجھ میں میرے اندر چراغ جلتے ہیں رقص کرتی ہے اک ہوا مجھ میں پھر سے آکار لے رہا ہے کہیں ایک چہرہ نیا نیا مجھ میں مجھ کو یہ کام خود ہی کرنا تھا عمر بھر کون جاگتا مجھ میں اب بھی سینہ جلا رہا ہے مرا ایک سورج بجھا ہوا مجھ میں جانے وہ کون ہے ...

    مزید پڑھیے

    رات بھر رونے کا دن تھا

    رات بھر رونے کا دن تھا پھر جدا ہونے کا دن تھا فصل گل آنے کہ شب تھی خوشبوئیں بونے کا دن تھا تشنگی پینے کہ شب تھی آب جو ہونے کا دن تھا گفتگو کرنے کہ شب تھی خامشی ڈھونے کا دن تھا قافلہ چلنے کہ شب تھی حادثہ ہونے کا دن تھا رات کے جنگل سے آگے چین سے سونے کا دن تھا

    مزید پڑھیے

    کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے

    کبھی جو مل نہ سکی اس خوشی کا حاصل ہے یہ درد ہی تو مری زندگی کا حاصل ہے میں اپنے آپ سے پیچھا نہیں چھڑا پایا مرا وجود مری بے بسی کا حاصل ہے یہ تیرگی بھی کسی روشنی سے نکلی ہے یہ روشنی بھی کسی تیرگی کا حاصل ہے ہزار کاوشیں کیں پر نہیں سمجھ پایا کوئی بتائے تو کیا آدمی کا حاصل ہے مرا ...

    مزید پڑھیے

    تنہا تنہا سہمی سہمی خاموشی

    تنہا تنہا سہمی سہمی خاموشی جیسی ہیں آوازیں ویسی خاموشی تنہائی میں چونکا دیتی ہے اکثر سناٹے سے باتیں کرتی خاموشی بے مقصد محفل سے بہتر تنہائی بے مطلب باتوں سے اچھی خاموشی دو آوازے ہم راہی اک رستہ کی اور دونوں کے بیچ میں چلتی خاموشی چپکے چپکے گھر کو ڈستی رہتی ہے دروازے کی ...

    مزید پڑھیے

    کیا کسی بات کی سزا ہے مجھے

    کیا کسی بات کی سزا ہے مجھے راستہ پھر بلا رہا ہے مجھے زندہ رہنے کی مجھ کو عادت ہے روز مرنے کا تجربہ ہے مجھے اتنا گم ہوں کے اب مرا سایا میرے اندر بھی ڈھونڈتا ہے مجھے چاند کو دیکھ کر یوں لگتا ہے چاند سے کوئی دیکھتا ہے مجھے پہلے تو جستجو تھی منزل کی اب کوئی کام دوسرا ہے مجھے یے ...

    مزید پڑھیے

    اک پرندہ شاخ پر بیٹھا ہوا

    اک پرندہ شاخ پر بیٹھا ہوا حسرتوں سے آسماں تکتا ہوا اک صدی کی داستاں کہتا ہوا اک شجر دالان میں سوکھا ہوا اک زمیں پیروں تلک سمٹی ہوئی اک سمندر دور تک پھیلا ہوا اک کہانی پھر جنم لیتی ہوئی اک فسانہ دفن پھر ہوتا ہوا اک کرن افلاک سے آتی ہوئی اک اندھیرا چاند پر بیٹھا ہوا اک زمیں دو ...

    مزید پڑھیے

    دھند ہے یا دھواں سمجھتا ہوں

    دھند ہے یا دھواں سمجھتا ہوں وسعت آسماں سمجھتا ہوں عشق کی لذتوں سے ہوں واقف درد و آہ و فغاں سمجھتا ہوں غرق ہوتے جہاز دیکھے ہیں سیل وقت رواں سمجھتا ہوں گفتگو کرتا ہوں درختوں سے پنچھیوں کی زباں سمجھتا ہوں وہ کمال شعور پایہ ہے ان کہی داستاں سمجھتا ہوں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2