احسن یوسف زئی کی غزل

    شب رنگ پرندے رگ و ریشے میں اتر جائیں

    شب رنگ پرندے رگ و ریشے میں اتر جائیں کہسار اگر میری جگہ ہوں تو بکھر جائیں ہر سمت سیہ گرد کی چادر سی تنی ہے سورج کے مسافر بھی ادھر آئیں تو مر جائیں سب کھیل ہواؤں کے اشاروں پہ ہے ورنہ موجیں کہاں مختار کہ جی چاہے جدھر جائیں اس دشت میں پانی کے سوا ڈھونڈھنا کیا ہے آنکھوں میں مری ریت ...

    مزید پڑھیے

    لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے

    لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے مجھ پہ الزام پھر آتا کیا ہے بولتی آنکھ میں بلور کی روح سنگ آواز اٹھاتا کیا ہے روز و شب بیچ دیے ہیں میں نے اس بلندی سے گراتا کیا ہے لاکھوں برسوں کے سفر سے حاصل دیکھنا کیا ہے دکھاتا کیا ہے تیر اندھے ہیں شکاری اندھا کھیل ہے کھیل میں جاتا کیا ہے

    مزید پڑھیے

    ہماری سانسیں ملی ہیں گن کے

    ہماری سانسیں ملی ہیں گن کے نہ جانے کتنے بجے ہیں دن کے تم اپنی آنکھوں کا دھیان رکھنا ہوا میں اڑنے لگے ہیں تنکے دیے رعونت سے جل رہے تھے ہوا نے پوچھے مزاج ان کے وہ رات آنکھوں میں کاٹتے ہیں گلاب زخمی ہوئے ہیں جن کے گری ہے آغوش رائگاں میں تمہارے ہاتھوں سے رات چھن کے

    مزید پڑھیے

    ہاں نہیں کے بیچ دھندلائی سی شام

    ہاں نہیں کے بیچ دھندلائی سی شام سائے سائے میں ہے شبنم سا قیام چہرے آنکھیں ہونٹ ہنستے ہیں تمام بستی بستی تہمت آوارہ گام روشنی کی بازیابی آفتاب ٹوٹنے والے ستارے تیرا نام حرف و لب معلوم سمتوں کے نقیب دل سفیر ناگہاں سمت کلام کائنات لمس موجود و عدم کچھ نہ ہونا بھی ہوا اتنا تمام

    مزید پڑھیے

    جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں

    جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں ضرر ایجاد گھر گھر جاگتے ہیں صدف آسودگی کی نیند سوئے مگر پیاسے سمندر جاگتے ہیں اڑی افواہ اندھی بستیوں میں ستاروں سے مقدر جاگتے ہیں لٹیروں کے لیے سوتی ہیں آنکھیں مگر ہم اپنے اندر جاگتے ہیں اندھیروں میں کھنڈر سوتا پڑا ہے ابابیلوں کے لشکر جاگتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم

    یہ کس کرنی کا پھل ہوگا کیسی رت میں جاگے ہم تیز نکیلی تلواروں کے بیچ میں کچے دھاگے ہم ٹہنی ٹہنی جھول رہی ہیں لاشیں زندہ پتوں کی کیا اس نظارے کی خاطر جنگل جنگل بھاگے ہم جلتی دھوپیں پیاسا پنچھی نہر کنارے اترے گا جب بھی کوئی زخم دکھا ہے انگ پیا کے لاگے ہم اپنی ہی پہچان نہیں تو سائے ...

    مزید پڑھیے

    کاغذ کی ناؤ ہوں جسے تنکا ڈبو سکے

    کاغذ کی ناؤ ہوں جسے تنکا ڈبو سکے یوں بھی نہیں کہ آپ سے یہ بھی نہ ہو سکے برسات تھم چکی ہے مگر ہر شجر کے پاس اتنا تو ہے کہ آپ کا دامن بھگو سکے اے چیختی ہواؤ کے سیلاب شکریہ اتنا تو ہو کہ آدمی سولی پہ سو سکے دریا پہ بند باندھ کر روکو جگہ جگہ ایسا نہ ہو کہ آدمی جی بھر کے رو سکے ہلکی سی ...

    مزید پڑھیے

    گھر گھر آپس میں دشمنی بھی ہے

    گھر گھر آپس میں دشمنی بھی ہے بس کھچا کھچ بھری ہوئی بھی ہے ایک لمحے کے واسطے ہی سہی کالے بادل میں روشنی بھی ہے نیند کو لوگ موت کہتے ہیں خواب کا نام زندگی بھی ہے راستہ کاٹنا ہنر تیرا ورنہ آواز ٹوٹتی بھی ہے خوبیوں سے ہے پاک میری ذات میرے عیبوں میں شاعری بھی ہے

    مزید پڑھیے

    شیشے شیشے کو پیوست جاں مت کرو

    شیشے شیشے کو پیوست جاں مت کرو چند تنکوں کو اتنا گراں مت کرو روشنی جس جگہ جھانکتی بھی نہیں اس اندھیرے کو تم آسماں مت کرو ایک کمرے میں رہنا ہے سب کو یہاں گیلے پتے جلا کر دھواں مت کرو دشمنی تو ہواؤں میں موجود ہے کوئی زحمت پئے دوستاں مت کرو کیا پتہ کس کے دامن تلے آگ ہے سب کے چہروں ...

    مزید پڑھیے