احسن یوسف زئی کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    شب رنگ پرندے رگ و ریشے میں اتر جائیں

    شب رنگ پرندے رگ و ریشے میں اتر جائیں کہسار اگر میری جگہ ہوں تو بکھر جائیں ہر سمت سیہ گرد کی چادر سی تنی ہے سورج کے مسافر بھی ادھر آئیں تو مر جائیں سب کھیل ہواؤں کے اشاروں پہ ہے ورنہ موجیں کہاں مختار کہ جی چاہے جدھر جائیں اس دشت میں پانی کے سوا ڈھونڈھنا کیا ہے آنکھوں میں مری ریت ...

    مزید پڑھیے

    لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے

    لہر سے لہر کا ناتا کیا ہے مجھ پہ الزام پھر آتا کیا ہے بولتی آنکھ میں بلور کی روح سنگ آواز اٹھاتا کیا ہے روز و شب بیچ دیے ہیں میں نے اس بلندی سے گراتا کیا ہے لاکھوں برسوں کے سفر سے حاصل دیکھنا کیا ہے دکھاتا کیا ہے تیر اندھے ہیں شکاری اندھا کھیل ہے کھیل میں جاتا کیا ہے

    مزید پڑھیے

    ہماری سانسیں ملی ہیں گن کے

    ہماری سانسیں ملی ہیں گن کے نہ جانے کتنے بجے ہیں دن کے تم اپنی آنکھوں کا دھیان رکھنا ہوا میں اڑنے لگے ہیں تنکے دیے رعونت سے جل رہے تھے ہوا نے پوچھے مزاج ان کے وہ رات آنکھوں میں کاٹتے ہیں گلاب زخمی ہوئے ہیں جن کے گری ہے آغوش رائگاں میں تمہارے ہاتھوں سے رات چھن کے

    مزید پڑھیے

    ہاں نہیں کے بیچ دھندلائی سی شام

    ہاں نہیں کے بیچ دھندلائی سی شام سائے سائے میں ہے شبنم سا قیام چہرے آنکھیں ہونٹ ہنستے ہیں تمام بستی بستی تہمت آوارہ گام روشنی کی بازیابی آفتاب ٹوٹنے والے ستارے تیرا نام حرف و لب معلوم سمتوں کے نقیب دل سفیر ناگہاں سمت کلام کائنات لمس موجود و عدم کچھ نہ ہونا بھی ہوا اتنا تمام

    مزید پڑھیے

    جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں

    جہاں شیشہ ہے پتھر جاگتے ہیں ضرر ایجاد گھر گھر جاگتے ہیں صدف آسودگی کی نیند سوئے مگر پیاسے سمندر جاگتے ہیں اڑی افواہ اندھی بستیوں میں ستاروں سے مقدر جاگتے ہیں لٹیروں کے لیے سوتی ہیں آنکھیں مگر ہم اپنے اندر جاگتے ہیں اندھیروں میں کھنڈر سوتا پڑا ہے ابابیلوں کے لشکر جاگتے ...

    مزید پڑھیے

تمام