Ahmad Ziya

احمد ضیا

احمد ضیا کی غزل

    احساس کی منزل سے گزر جائے گا آخر

    احساس کی منزل سے گزر جائے گا آخر مجھ میں ہے جو انسان وہ مر جائے گا آخر اک دن تو تری راہ میں پتھرائیں گی آنکھیں یہ جسم بھی ریزوں میں بکھر جائے گا آخر اے دوست یہاں عرض ہنر جاں کا زیاں ہے تو گہرے سمندر میں اتر جائے گا آخر میں رنگ سحر تیرے لیے ڈھونڈ کے لاؤں تو شام کے میلے میں کدھر ...

    مزید پڑھیے

    ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا

    ملا جو دھوپ کا صحرا بدن شجر نہ بنا میں وہ ہوں خود جو کبھی اپنا ہم سفر نہ بنا نگر نگر میں نئی بستیاں بسائی گئیں ہزار چاہا مگر پھر بھی اپنا گھر نہ بنا یہ بات بات ہے دل کی تو پھر جھجک کیسی یہ نقش نقش وفا ہے تو سوچ کر نہ بنا چمکتے دن کے اجالوں سے آشنا ہو کر اندھیری رات میں سائے کو ہم ...

    مزید پڑھیے

    جلتی بجھتی سی رہ گزر جیسے

    جلتی بجھتی سی رہ گزر جیسے زندگی دور کا سفر جیسے اس قدر پرخلوص لہجہ ہے اس سے ملنا ہے عمر بھر جیسے اس محلہ میں اک جواں لڑکی بیچ اخبار میں خبر جیسے ایک مانوس سی صدا گونجی دور یادوں کا اک نگر جیسے

    مزید پڑھیے

    ذرا سکون بھی صحرا کے پیار نے نہ دیا

    ذرا سکون بھی صحرا کے پیار نے نہ دیا مسافروں کو ہوا نے پکارنے نہ دیا تجھے بھی دے نہ سکے چین وہ گلاب کے پھول مجھے بھی اذن تبسم بہار نے نہ دیا نہ جانے کتنے مراحل کے بعد پایا تھا وہ ایک لمحہ جو تو نے گزارنے نہ دیا کہاں گئے وہ جو آباد تھے خرابے میں پتا کسی کا دل بے قرار نے نہ دیا میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم پر میرے ارمانوں کا خوں

    ہر قدم پر میرے ارمانوں کا خوں زندگی تیرا کہاں تک ساتھ دوں آندھیوں کی زد میں ہے میرا وجود اور میں دیوار کی تصویر ہوں کون ہو تم اور کہاں سے آئے ہو سوچتا ہوں اپنے سائے سے کہوں رنگ کی دنیا سے میں اکتا گیا پھول رت میں زہر پی کر سو رہوں چاہتا ہوں تم کو خوشبو کی طرح اب کہ میں آواز ہی ...

    مزید پڑھیے

    پیار کیا تھا تم سے میں نے اب احسان جتانا کیا

    پیار کیا تھا تم سے میں نے اب احسان جتانا کیا خواب ہوئیں وہ پیار کی باتیں باتوں کو دہرانا کیا راہ وفا ہے ہم سفرو پر عزم رہو ہاں تیز چلو چار قدم پہ منزل ہے اب راہ سے واپس جانا کیا سنگ زنی و طعنہ زنی اس دور کا شیوہ ہے یارو اپنے دل میں کھوٹ نہیں جب دنیا سے گھبرانا کیا مے خانے میں دور ...

    مزید پڑھیے

    وہ خواب سا پیکر ہے گل تر کی طرح ہے

    وہ خواب سا پیکر ہے گل تر کی طرح ہے آنکھوں میں گئی شام کے منظر کی طرح ہے احساس دلاتی ہے یہ پھیلی ہوئی خوشبو اس گھر کی محبت بھی مرے گھر کی طرح ہے میں آئینہ جیسا ہوں کوئی توڑ نہ ڈالے ہر شخص مری راہ میں پتھر کی طرح ہے اک میں ہوں کہ لہروں کی طرح چین نہیں ہے اک وہ ہے کہ خاموش سمندر کی ...

    مزید پڑھیے

    محسوس کر رہا ہوں تجھے خوشبوؤں سے میں

    محسوس کر رہا ہوں تجھے خوشبوؤں سے میں آواز دے رہا ہوں بڑے فاصلوں سے میں مجھ کو مرے وجود سے کوئی نکال دے تنگ آ چکا ہوں روز کے ان حادثوں سے میں یہ اور بات تجھ کو نہیں پا سکا مگر آیا ترے قریب کئی راستوں سے میں طے ہو سکے گا مجھ سے نہ یہ ذات کا سفر مانوس ہو نہ پاؤں گا تنہائیوں سے ...

    مزید پڑھیے