تصور کو جگا رکھا ہے اس نے

تصور کو جگا رکھا ہے اس نے
دریچہ نیم وا رکھا ہے اس نے


ذرا سا پھول میرے باغ میں ہے
بہت کچھ ماورا رکھا ہے اس نے


بنا دیکھے گواہی مانگتا ہے
سوال اپنا جدا رکھا ہے اس نے


مرے ہونے سے خود میرا تعلق
بہ رنگ انتہا رکھا ہے اس نے


مٹا دیتا ہے ہر تصویر میری
مجھے اپنا بنا رکھا ہے اس نے


ہماری پیاس قطروں میں لکھی ہے
مگر دریا بہا رکھا ہے اس نے


یہ سورج چاند تاروں کا زمانہ
بس اک لمحہ جلا رکھا ہے اس نے


بناوٹ برملا پھولوں کی صورت
کہ خوشبو کو چھپا رکھا ہے اس نے


کھڑی ہے راہ روکے خود فریبی
مجھے واپس بلا رکھا ہے اس نے


ہوا کا ہے نہ پانی کا کرشمہ
نفس کو خود جلا رکھا ہے اس نے


مجھے بے نام کر دیتا ہے احمدؔ
کہ نام اپنا خدا رکھا ہے اس نے