یہ وقت روشنی کا مختصر ہے
یہ وقت روشنی کا مختصر ہے
ابھی سورج طلوع منتظر ہے
شہادت لفظ کی دشوار تر ہے
کتابوں میں بہت زیر و زبر ہے
ابھی کھلنے کو ہے در آسماں کا
ابھی اظہار کا پیاسا بشر ہے
یہ دنیا ایک لمحے کا تماشہ
نہ جانے دوسرا لمحہ کدھر ہے
جو دیکھا ہے وہ سب کچھ ہے ہمارا
جو ان دیکھا ہے وہ امید بھر ہے
میں خود خاشاک گرویدہ ہوں ورنہ
مرے ہاتھوں میں تنکا شاہ پر ہے
پھر اس کے بعد بس حیرانیاں ہیں
خبر والا بھی خاصا بے خبر ہے
مرا نعرہ ہے جنگل آگ جیسا
مرا کلمہ شکستہ بال و پر ہے
زباں میری سیاست چاٹتی ہے
کہ اس کا ذائقہ شیر و شکر ہے
یہ اندھی پیاس کا موسم ہے احمدؔ
سمندر روشنی کا بے اثر ہے