جسم کا نظام
جسم کی بھی ایک جمہوریت ہے جو ہر کس و ناکس میں بے نام تقسیم ہو کے آدمی کو بے اثر کر دیتی ہے جسم کی بھی ایک آمریت ہوتی ہے جو کسی ایک میں جل بجھ کے سب کے لیے راکھ بن جاتی ہے
ممتاز جدید شاعر اور افسانہ نگار، اردو میں نثری نظم کے اولین شاعروں میں شامل۔ اہم ادبی جریدے’تشکیل ‘ کے مدیر۔
Prominent modernist poet, story writer, one of the first poets to write prose poems; also edited important journal "Tashkeel".
جسم کی بھی ایک جمہوریت ہے جو ہر کس و ناکس میں بے نام تقسیم ہو کے آدمی کو بے اثر کر دیتی ہے جسم کی بھی ایک آمریت ہوتی ہے جو کسی ایک میں جل بجھ کے سب کے لیے راکھ بن جاتی ہے
جس جہان میں میری آواز نے مجھے چھوڑا تھا وہ اب میری سماعت سے پرے ہے مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا مشکل یہ ہے کہ آدمی بہت کچھ سن سکتا نہ دیکھ سکتا ہے پھر بھی شاید کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی مرنے والے آدمی کی آنکھوں کی کگار پر جب اس کی جان ٹھہر جاتی ہے تو اس کے نام کا پرندہ اسے اچانک اڑا لے ...
یہاں تک ہم آ گئے ہیں اور ہاں تمہارا پتہ انہیں لوگوں سے معلوم ہوا جو مر چکے تھے جب ہم چلے تھے تو آدھی عمر بتانے کے پچھتاوے کے سامنے دن ڈوب رہا تھا ایک گھوڑا کھڑا تھا اور ہانپ رہا تھا ایک منٹ ٹھہرو میں تھوڑی سی چائے پی لوں تو آگے بڑھوں میرے ہاتھ میں یہ جو سفید کاغذ ہے اسے تمہاری ...
کس لئے کہاں سے کیا ہوا کہ میں یہاں آ پہنچا اب مجھے کیسے لے جایا جائے گا وہاں جہاں محبت تھی انوراگ تھا اور اس کا راج تھا آواز کے خدا اب تو ہی بتا کہ افسوس کس پر کیا جائے اور کس کو دہائی دی جائے کس نے مجھے اس طرح مار دیا کہ نہ تو میں اپنی نظر میں رہا نہ دنیا میری نظر میں اٹھاؤ اسے وہاں ...
دن کی گہری دھوپ نے جو جو گھاؤ دیئے ہیں ان میں میرے درد کا کوئی بھید نہ ڈھونڈو میرے دکھ تو ان دیکھے ہیں دیکھو اس دیوار کے پیچھے برسوں کی نفرت سے گھائل تھکی ہوئی انجانی یادیں پتیاں بن کے بکھر گئی ہیں دور آکاش کے اس کونے میں ایک میلی چادر میں لپٹی شام کھڑی ہے آؤ چلیں اس شام کی چادر ...
گیان بلندی کا کشٹ ہے اس لئے آسانی سے نہیں ملتا یہ اور بات ہے کہ تھوڑی دیر کی بارش میں ان گنت برساتی گڑھے آسمان کا عکس کھینچ کر اتراتے ہیں اور گہرے سمندر پہ ہنستے ہیں
اب میں کس سے کہوں کہ کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں نہ حرف و لفظ نہ آواز نہ سماعت کوئی رشتہ ناتا ہے نہیں اک اک کر کے رشتے ناتے مٹی سے بچھڑ کے اور پانی میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں وہاں جانے کا وقت آ گیا ہے ساتھ لے جانے والا پرندہ سر پر منڈلا رہا ہے اسی لیے درختوں کی پتلیاں بالکل خاموش ...
خاتمے سے پہلے اگر ختم ہونا ہے تو سمجھ لو کہ خاتمہ ہو چکا ہے سلائی مشین پر میری عورت کی نیند میں سوئی گرنا میرے مقسوم کا ویرانہ ہے حواس بہت ہے قصوں پر بھاری ہیں حواس جانتے ہیں کہا نہیں جانتے ہوئے بھی سبھی جانتے ہیں کہ دنیا پیدا ہی نہیں ہوئی جس میں بھیڑیے نہ ہوں صرف خرگوش رہ رہے ...
جن آنکھوں نے ہماری آنکھوں اور پاؤں کے لئے راستہ بنایا وہ ان دیکھے آسمان کی طرف چلی گئیں ایسے میں اگر ایک دل بھی ہوتا تو اس کے ہونے کے لئے ایک آرزو ہی کافی تھی اور ایک آرزو بھی اگر ہوتی تو وہ اپنے ہونے کے لئے کپڑے کو گیلا کر سکتی تھی اور اسے کسی الگنی پر سکھا بھی سکتی تھی
تم ایک ہی لباس نہیں پہن سکتے اور وہ ہے سفر 27 سال سے اس عرصہ بے زمینی پر میں سفر ہی تو پہنتا آیا ہوں ایک بار ایک قصبے میں ایک ننھی سی بچی نے مجھ سے میری اداسی پوچھی تھی میری اداسی میرے اندر تھی اور بچی کا مطلب باہر تھا باہر کی قوت نے میری چھپی ہوئی روٹیاں چھین لیں تم نے کہیں سے سن ...