Ahmad Hamdani

احمد ہمدانی

شاعر و ناقد، اقبال کی فکر اور ان کے فن پر اپنی تنقیدی کتاب کے لیے جانے جاتے ہیں

Poet and critic, known for his critical book on the art of Iqbal

احمد ہمدانی کی غزل

    گرد کیسی ہے یہ دھواں سا کیا

    گرد کیسی ہے یہ دھواں سا کیا جا رہا ہے وہ کارواں سا کیا ہو گیا کوئی مہرباں سا کیا رنج کا بندھ گیا سماں سا کیا تک رہے ہیں خلا میں ہم کس کو بن رہا ہے وہ اک نشاں سا کیا سلسلہ کچھ اداسیوں کا بھی جگمگاتا ہے کہکشاں سا کیا ہم بھی اچھے ہیں درد بھی کم ہے دل سے اٹھا مگر دھواں سا کیا کیسے ...

    مزید پڑھیے

    یاد کیا کیا لوگ دشت بے کراں میں آئے تھے

    یاد کیا کیا لوگ دشت بے کراں میں آئے تھے رنگ لیکن کب یہ چشم خوں فشاں میں آئے تھے کس تمنا سے تمہیں دیکھا تھا کس چاہت سے ہم رقص کرتے حلقۂ وارفتگاں میں آئے تھے صورتیں کیا کیا دل آئینہ گر میں بس گئیں ہم سے بے صورت بھی تو بزم جہاں میں آئے تھے سادگی سے ہم نے سمجھا تھا ہمارا ذکر ہے تذکرے ...

    مزید پڑھیے

    اب یہ ہوگا شاید اپنی آگ میں خود جل جائیں گے

    اب یہ ہوگا شاید اپنی آگ میں خود جل جائیں گے تم سے دور بہت رہ کر بھی کیا پایا کیا پائیں گے دکھ بھی سچے سکھ بھی سچے پھر بھی تیری چاہت میں ہم نے کتنے دھوکے کھائے کتنے دھوکے کھائیں گے کل کے دکھ بھی کون سے باقی آج کے دکھ بھی کے دن کے جیسے دن پہلے کاٹے تھے یہ دن بھی کٹ جائیں گے عقل پہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    یہ تیری چاہ بھی کیا تیری آرزو بھی کیا

    یہ تیری چاہ بھی کیا تیری آرزو بھی کیا ہمارے جسم میں یہ دوڑتا لہو بھی کیا ہے جس کے دھیان میں ہر لمحہ خواب کا عالم ملے کہیں تو کریں اس سے گفتگو بھی کیا ترے خیال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ ہمارے دشت میں لیکن یہ رنگ و بو بھی کیا یہ تپتی ریت یہ پیاسی زمیں یہاں لوگو کسی کے پیار سے مہکی ...

    مزید پڑھیے

    منہ اندھیرے گھر سے نکلے پھر تھے ہنگامے بہت

    منہ اندھیرے گھر سے نکلے پھر تھے ہنگامے بہت دن ڈھلا تنہا ہوئے اور رات بھر پگھلے بہت رنج کے اندھے کنویں میں رات اب کیسے کٹے دیکھنے کو دن میں دیکھے چاند سے چہرے بہت پھر بھی ہم اک دوسرے سے بد گماں کیا کیا رہے جھوٹ ہم نے بھی نہ بولا تم بھی تھے سچے بہت تھا ارادہ ان کے گھر سے بچ کے ہم ...

    مزید پڑھیے

    خیال و خواب سے گھر کب تلک سجائیں ہم

    خیال و خواب سے گھر کب تلک سجائیں ہم ہے جی میں اب تو کہ جی خود سے بھی اٹھائیں ہم عجیب وحشتیں حصے میں اپنے آئی ہیں کہ تیرے گھر بھی پہنچ کر سکوں نہ پائیں ہم انیس جاں تو ہیں یہ خوش قداں چنار مگر ادائیں تیری انہیں کس طرح سکھائیں ہم وہ گھر تو جل بھی چکا جس میں تم ہی تم تھے کبھی اب اس کی ...

    مزید پڑھیے

    دلوں کو رنج یہ کیسا ہے یہ خوشی کیا ہے

    دلوں کو رنج یہ کیسا ہے یہ خوشی کیا ہے یہ ظلمتوں سے اجالوں کی ہمدمی کیا ہے ہوائیں شہر سے روتی ہوئی گزرتی ہیں دلوں میں خوف کی یہ ایک لہر سی کیا ہے اداسیوں کی یہ پرچھائیاں سی دور تلک مہہ‌ و نجوم کی آنکھوں میں یہ نمی کیا ہے یہ کھلکھلاتے در و بام میں گھٹن کیسی یہ جگمگاتے مکانوں میں ...

    مزید پڑھیے

    دل تجھے پا کے بھی تنہا ہوتا

    دل تجھے پا کے بھی تنہا ہوتا دور تک ہجر کا سایا ہوتا اور تو اپنے لیے کیا ہوتا اپنا دکھ ہی کوئی اپنا ہوتا آپ آتے کہ نہ آتے دل میں جلتا بجھتا کوئی شعلہ ہوتا آرزو پھر نئی کرتے تعبیر پھر نیا کوئی تماشا ہوتا پھر وہی ایک خلش سی ہوتی پھر کسی نے ہمیں دیکھا ہوتا زخم پھر کوئی مہکتا دل ...

    مزید پڑھیے

    یہ وفائیں ساری دھوکے پھر یہ دھوکے بھی کہاں

    یہ وفائیں ساری دھوکے پھر یہ دھوکے بھی کہاں چند دن کی بات ہے پھر لوگ ہم سے بھی کہاں تم کو آنا تھا نہ آئے وقت لیکن کٹ گیا مضمحل ہوتے ہو کیوں ہم رات روئے بھی کہاں پیڑ یہ سوکھے ہوئے کچھ یہ زمیں تپتی ہوئی چلتے چلتے آج ٹھہرے ہم تو ٹھہرے بھی کہاں آج تو وہ دیر تک بیٹھے رہے خاموش سے رفتہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس کو یاد کروں اس کا انتظار کروں

    کچھ اس کو یاد کروں اس کا انتظار کروں بہت سکوت ہے میں خود کو بے قرار کروں بھروں میں رنگ نئے مضمحل تمنا میں اداس رات کو آسودۂ بہار کروں کچھ اور چاہ بڑھاؤں کچھ اور درد سہوں جو مجھ سے دور ہے یوں اس کو ہم کنار کروں وفا کے نام پہ کیا کیا جفائیں ہوتی رہیں میں ہر لباس جفا آج تار تار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2