Ahmad Ashfaq

احمد اشفاق

احمد اشفاق کی غزل

    جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی

    جتنی ہم چاہتے تھے اتنی محبت نہیں دی خواب تو دے دیے اس نے ہمیں مہلت نہیں دی بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی اس کی خاموشی مری راہ میں آ بیٹھی ہے میں چلا جاتا مگر اس نے اجازت نہیں دی ہم ترے ساتھ ترے جیسا رویہ رکھتے دینے والے نے مگر ایسی طبیعت ...

    مزید پڑھیے

    گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے

    گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے شریک بزم تھے لیکن نظر ملا نہ سکے عذاب ہجر کے لمحات ہم بھلا نہ سکے دیار غیر میں اک پل سکون پا نہ سکے بہت بعید نہ تھا مسئلوں کا حل ہونا انا کے پاؤں سے زنجیر ہم ہٹا نہ سکے تعلقات میں حد درجہ احتیاط رہی قریب آ نہ سکے وہ مجھے بھلا نہ سکے فریب کھا ...

    مزید پڑھیے

    زمیں والوں کی بستی میں سکونت چاہتی ہے

    زمیں والوں کی بستی میں سکونت چاہتی ہے مری فطرت ستاروں سے اجازت چاہتی ہے عجب ٹھہراؤ پیدا ہو رہا ہے روز و شب میں مری وحشت کوئی تازہ اذیت چاہتی ہے میں تجھ کو لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں میری دنیا مری تحریر اب تھوڑی سی فرصت چاہتی ہے ادھر منہ زور موجیں دندناتی پھر رہی ہیں مگر اک ناؤ ...

    مزید پڑھیے

    وہ مری جرأت کم یاب سے ناواقف ہیں

    وہ مری جرأت کم یاب سے ناواقف ہیں ہاں وہی لوگ جو گرداب سے ناواقف ہیں ایسی راتیں کہ جنہیں نیند کی لذت نہ ملی ایسی آنکھیں جو ابھی خواب سے ناواقف ہیں میری کم گوئی پہ جو طنز کیا کرتے ہیں میری کم گوئی کے اسباب سے ناواقف ہیں ان سے کیا کیجے توقع وہ ہیں نو وارد دشت دشت وحشت کے جو آداب ...

    مزید پڑھیے

    سب جل گیا جلتے ہوئے خوابوں کے اثر سے

    سب جل گیا جلتے ہوئے خوابوں کے اثر سے اٹھتا ہے دھواں دل سے نگاہوں سے جگر سے آج اس کے جنازے میں ہے اک شہر صف آرا کل مر گیا جو آدمی تنہائی کے ڈر سے کب تک گئے رشتوں سے نبھاتا میں تعلق اس بوجھ کو اے دوست اتار آیا ہوں سر سے جو آئنہ خانہ مری حیرت کا سبب ہے ممکن ہے مرے بعد مری دید کو ...

    مزید پڑھیے

    دے کے وہ سارے اختیار مجھے

    دے کے وہ سارے اختیار مجھے اور کرتا ہے شرمسار مجھے زخم ترتیب دے رہا ہوں میں اور کچھ وقت دے ادھار مجھے پارسائی کا زعم ہے ان کو کہہ رہے ہیں گناہ گار مجھے فاصلے یہ سمٹ نہیں سکتے اب پرایوں میں کر شمار مجھے دل کے گلشن میں تم چلے آؤ اور کر دو سدا بہار مجھے ترک الفت کے بعد بھی ...

    مزید پڑھیے

    اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتا میں

    اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتا میں کوئی صورت پس تصویر نہیں چاہتا میں چاہتا ہوں کہ رفاقت کا بھرم رہ جائے عہد و پیمان کی تفسیر نہیں چاہتا میں حکم صادر ہے تو نافذ بھی کرو میرے حضور فیصلے میں کوئی تاخیر نہیں چاہتا میں چاہتا ہوں تجھے گفتار سے قائل کر لوں بات میں لہجۂ شمشیر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں

    ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں ریگ زاروں میں پھریں خاک اڑانے لگ جائیں ڈھونڈتا رہتا ہوں ہاتھوں کی لکیروں میں تجھے چاہتا ہوں مرے ہاتھوں میں خزانے لگ جائیں یہ الگ بات کہ تجدید تعلق نہ ہوا پر اسے بھولنا چاہوں تو زمانے لگ جائیں شہر بے شکل میں اے کاش کبھی ایسا ہو حسب ترتیب ...

    مزید پڑھیے

    انا منہ آنسوؤں سے دھو رہی ہے

    انا منہ آنسوؤں سے دھو رہی ہے ضرورت سر بہ سجدہ ہو رہی ہے مری دشمن مری بے باک گوئی مری راہوں میں کانٹے بو رہی ہے ریا کاری لیے جاتی ہے سبقت حقیقت سر جھکائے رو رہی ہے مسلسل اک اذیت زندگانی غموں کے بوجھ سر پر ڈھو رہی ہے زمانہ مصلحت پرور ہوا ہے ضرورت آدمیت کھو رہی ہے کسی کی شخصیت ...

    مزید پڑھیے

    تم جو آ جاؤ غم دھواں ہو جائے

    تم جو آ جاؤ غم دھواں ہو جائے بزم جاں رشک آسماں ہو جائے ٹوٹ جاتا ہے دم محبت کا بد گمانی اگر جواں ہو جائے حال و ماضی کی سرحدیں ایسی زندگی پل میں رفتگاں ہو جائے صاف ستھرا معاملہ رکھئے اس سے پہلے عذاب جاں ہو جائے چیخ اٹھتا ہے دفعتاً کردار جب کوئی شخص بد گماں ہو جائے لازمی ہیں ...

    مزید پڑھیے