Ahmad Aqeel

احمد عقیل

احمد عقیل کی غزل

    تیرے بے ربط بیانات سے خوف آتا ہے

    تیرے بے ربط بیانات سے خوف آتا ہے مجھ کو اب شہر کے حالات سے خوف آتا ہے اول اول میں سمجھتا تھا مسیحا تجھ کو منصفا اب تری ہر بات سے خوف آتا ہے ہم جنوں خیز مزاجوں کو نہیں تاب شعور واعظ شہر کے خطبات سے خوف آتا ہے ہاں مجھے گوشہ نشینی سے بہت الفت تھی اب مگر شورش جذبات سے خوف آتا ...

    مزید پڑھیے

    دل کے گھاؤ بھی کام آئیں مجھے

    دل کے گھاؤ بھی کام آئیں مجھے دیکھ کر لوگ مسکرائیں مجھے وہ ہی دنیا وہی پرانا پن یا خدا کچھ نیا دکھائیں مجھے لوٹ آؤں گا سب بھلا دوں گا سرسری سا اگر بلائیں مجھے با وضو بزم یار میں جاؤں آیت وصل گر سنائیں مجھے بڑی مشکل سے آ کے بیٹھا ہوں درد اٹھتے ہیں مت اٹھائیں مجھے آنکھ رونے کا ...

    مزید پڑھیے

    ان کے فراق نے مجھے اچھا صلہ دیا

    ان کے فراق نے مجھے اچھا صلہ دیا جو دکھ نہیں رہا تھا وہ سب کچھ دکھا دیا پہلے لگی نسیم سحر مژدۂ وصال اس جھونکے نے پھر آنکھوں سے دریا بہا دیا اک خواب مشکلات میں ہوتا ہے ساتھ ساتھ اک خواب نے حیات کا ہر غم بھلا دیا میں سوچتا رہا کہ کروں کیسے لب کشائی اشکوں نے ترجمانی کی دکھڑا سنا ...

    مزید پڑھیے

    میں تخیل کی صلیبوں پہ جو مصلوب ہوا

    میں تخیل کی صلیبوں پہ جو مصلوب ہوا پھر کہیں جا کے ذرا صاحب اسلوب ہوا جرعۂ اشک پیا مست ہوا رقص کیا ایسا کڑوا نہ مری جاں کوئی مشروب ہوا تیرے ہرجائی پنے کا یہ ہوا رد عمل مجھے محبوب ملا ہے نہ تجھے خوب ہوا بر سر طور بھی تو نے یہ تحیر بانٹا دید کی جوت جگائی وہیں محجوب ہوا لذت وصل ...

    مزید پڑھیے

    یہ طرز تکلم ہے ترا ہم نفساں سے

    یہ طرز تکلم ہے ترا ہم نفساں سے تو دیکھ رہا ہے نظر سود و زیاں سے تحقیر مری اس سے سوا بزم میں کیا ہو میں تجھ سے مخاطب تو فلاں ابن فلاں سے کیا معرکۂ طور بپا ہونے لگا ہے اک شعلہ لپکتا ہے مرے قلب تپاں سے مے خانۂ اجمیر سے وہ رنگ ہے مفقود اب شکوہ مجھے کچھ بھی نہیں پیر مغاں سے فرہاد کی ...

    مزید پڑھیے

    خود کو ہر دن نئی تربت پہ کھڑا پاتے ہیں

    خود کو ہر دن نئی تربت پہ کھڑا پاتے ہیں اشک خوں رنگ بھی اب ختم ہوئے چاہتے ہیں بزم ہستی میں قیامت کا سماں لگتا ہے لوگ اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں دل کو ہے تاب و تواں اور نہ آنکھوں کو مجال قدم اٹھتے ہیں تو پیچھے کی طرف آتے ہیں بات بنتی نظر آتی نہیں اس عالم میں اب کسی اور ہی ...

    مزید پڑھیے

    ان کی ہر بات ہی اردو میں سند ہے حد ہے

    ان کی ہر بات ہی اردو میں سند ہے حد ہے میرا لکھا ہوا ہر لفظ ہی رد ہے حد ہے نذر تشکیک نہ کر پاک نگاہی کو مری تجھ سے ملنا بھی کوئی خواہش بد ہے حد ہے ہر نئے پنچھی کو اڑنے نہیں دیتی دنیا ہر کسی دل میں بھرا کینہ و کد ہے حد ہے مجھ کو دیکھا جو سر بزم تو منہ پھیر لیا اپنے وعدوں سے یہ اعراض ...

    مزید پڑھیے

    عالم ذات میں جھانکو کوئی کب اچھا ہے

    عالم ذات میں جھانکو کوئی کب اچھا ہے دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ سب اچھا ہے رونے لگتا ہوں تو آتے ہیں دلاسے دینے شعر پڑھتا ہوں تو کہتے ہیں عجب اچھا ہے جانتا ہوں تو کسی اور سے مل کر خوش ہے چل ترے پیار میں مرنے کا سبب اچھا ہے جب فقیروں کی بھی کردار کشی کی تو نے کیسے مانے گا کوئی تیرا ...

    مزید پڑھیے

    وہ کسی اور سمت جاتے رہے

    وہ کسی اور سمت جاتے رہے ہم فقط اپنا دل جلاتے رہے اس کی انگڑائی کیا قیامت تھی ہم نئے زاویے بناتے رہے ہر طرف رات کا نظارہ تھا دل بنا کر دیا جلاتے رہے اس کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ ہم پتھروں کو غزل سناتے رہے ہم فقط زاہدان خشک نہیں بات بگڑی ہوئی بناتے رہے اس کی آنکھیں تھیں عام سی ...

    مزید پڑھیے

    چل مرے ساتھ ذرا ہو کے نجف آتے ہیں

    چل مرے ساتھ ذرا ہو کے نجف آتے ہیں یہ وہ بستی ہے جہاں اہل شرف آتے ہیں تیری آواز پہ دوڑے ہوئے آئیں گے ہم جیسے اذان پہ مسجد کی طرف آتے ہیں تو ذرا تال بڑھا کر کوئی مصرع تو اٹھا کس طرح دیکھنا ہم دست بدف آتے ہیں تیری آنکھیں ہیں چھلکتے ہوئے جاموں کی شراب تو بلائے تو بصد شوق و شغف آتے ...

    مزید پڑھیے