تیرے بے ربط بیانات سے خوف آتا ہے
تیرے بے ربط بیانات سے خوف آتا ہے
مجھ کو اب شہر کے حالات سے خوف آتا ہے
اول اول میں سمجھتا تھا مسیحا تجھ کو
منصفا اب تری ہر بات سے خوف آتا ہے
ہم جنوں خیز مزاجوں کو نہیں تاب شعور
واعظ شہر کے خطبات سے خوف آتا ہے
ہاں مجھے گوشہ نشینی سے بہت الفت تھی
اب مگر شورش جذبات سے خوف آتا ہے
پہلے سنتا تھا بڑے شوق سے افسانہ مرا
اب اسے میری حکایات سے خوف آتا ہے
میری آنکھوں میں تلاطم تری آنکھوں میں سکون
بس مجھے ایسے تضادات سے خوف آتا ہے