خود کو ہر دن نئی تربت پہ کھڑا پاتے ہیں
خود کو ہر دن نئی تربت پہ کھڑا پاتے ہیں
اشک خوں رنگ بھی اب ختم ہوئے چاہتے ہیں
بزم ہستی میں قیامت کا سماں لگتا ہے
لوگ اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں
دل کو ہے تاب و تواں اور نہ آنکھوں کو مجال
قدم اٹھتے ہیں تو پیچھے کی طرف آتے ہیں
بات بنتی نظر آتی نہیں اس عالم میں
اب کسی اور ہی دنیا کی ہوا کھاتے ہیں
حادثہ یہ ہے کہ محبوب ہمیں مل نہ سکا
اور پا سکتے نہیں وہ جنہیں ہم بھاتے ہیں
اب کسی بو سے لگاؤ نہیں ہوتا ہم کو
مشت خاک در سرکار اٹھا لاتے ہیں