Afzal Gauhar Rao

افضل گوہر راؤ

افضل گوہر راؤ کی غزل

    مثال برگ کسی شاخ سے جھڑے ہوئے ہیں

    مثال برگ کسی شاخ سے جھڑے ہوئے ہیں اسی لیے تو ترے پاؤں میں پڑے ہوئے ہیں زمیں نے اونچا اٹھایا ہوا ہے ورنہ دوست ہوا میں گھاس کے تنکے کہاں پڑے ہوئے ہیں کسی نے میری زمیں چھان کر نہیں دیکھی وگرنہ کتنے ستارے یہاں پڑے ہوئے ہیں یہاں سروں پہ یوں ہی برف آ پڑی ورنہ بڑے بھی عمر سے اپنی کہاں ...

    مزید پڑھیے

    تیری دنیا سے یہ دل اس لیے گھبراتا ہے

    تیری دنیا سے یہ دل اس لیے گھبراتا ہے اس سرائے میں کوئی آتا کوئی جاتا ہے تو نے کیا دل کی جگہ رکھا ہے پتھر مجھ میں غم سے بھر جاؤں بھی تو رونا نہیں آتا ہے وہ مرے عشق کی گہرائی سمجھتا ہی نہیں راستہ دور تلک جائے تو بل کھاتا ہے پھر بھلا کس کے لیے اتنی چمکتی ہے یہ ریت کوئی دریا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    چپ چاپ نکل آئے تھے صحرا کی طرف ہم

    چپ چاپ نکل آئے تھے صحرا کی طرف ہم چلتے ہوئے کیا دیکھتے دنیا کی طرف ہم پامال کئے جاتی ہے اس واسطے دنیا بیٹھے ہیں ترے نقش کف پا کی طرف ہم کس پیاس سے خالی ہوا مشکیزہ ہمارا دریا سے جو اٹھ آئے ہیں صحرا کی طرف ہم کیا چاہتی ہے نیت بازار زمانہ کھنچتے چلے جاتے ہیں جو اشیا کی طرف ہم یہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو سورج ہے یہ سورج بھی کہاں تھا پہلے

    یہ جو سورج ہے یہ سورج بھی کہاں تھا پہلے برف سے اٹھتا ہوا ایک دھواں تھا پہلے مجھ سے آباد ہوئی ہے تری دنیا ورنہ اس خرابے میں کوئی اور کہاں تھا پہلے ایک ہی دائرے میں قید ہیں ہم لوگ یہاں اب جہاں تم ہو کوئی اور وہاں تھا پہلے اس کو ہم جیسے کئی مل گئے مجنوں ورنہ عشق لوگوں کے لیے کار ...

    مزید پڑھیے

    ہر آئنے میں ترا ہی دھواں دکھائی دیا

    ہر آئنے میں ترا ہی دھواں دکھائی دیا مرا وجود ہی مجھ کو کہاں دکھائی دیا یہ کیسی دھوپ کے موسم میں گھر سے نکلا ہوں کہ ہر پرندہ مجھے سائباں دکھائی دیا میں اپنی لہر میں لپٹا ہوا سمندر ہوں میں کیا کروں جو ترا بادباں دکھائی دیا کہا ہی تھا کہ سلام اے امام عالی مقام ہماری پیاس کو آب ...

    مزید پڑھیے

    دیر تک کوئی کسی سے بدگماں رہتا نہیں

    دیر تک کوئی کسی سے بدگماں رہتا نہیں وہ وہاں آتا تو ہوگا میں جہاں رہتا نہیں ایک میں ہوں دھوپ میں کتنا سفر طے کر لیا ایک تو ہے جو کبھی بے سائباں رہتا نہیں تم کو کیوں پیڑوں پہ لکھے نام مٹنے کا ہے دکھ اس بدلتی رت میں پتھر پر نشاں رہتا نہیں وہ بنا لیتا ہے اپنا گھونسلہ دیوار میں جس ...

    مزید پڑھیے

    زمیں سے آگے بھلا جانا تھا کہاں میں نے

    زمیں سے آگے بھلا جانا تھا کہاں میں نے اٹھائے رکھا یوں ہی سر پہ آسماں میں نے کسی کے ہجر میں شب سے کلام کرتے ہوئے دیے کی لو کو بنایا تھا ہم زباں میں نے شجر کو آگ کسی اور نے لگائی تھی نہ جانے سانس میں کیوں بھر لیا دھواں میں نے کبھی تو آئیں گے اس سمت سے گلاب و چراغ یہ نہر یوں ہی نکالی ...

    مزید پڑھیے

    اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں

    اسی لیے بھی نئے سفر سے بندھے ہوئے ہیں کہ ہم پرندے تو بال و پر سے بندھے ہوئے ہیں تمہیں ہی صحرا سنبھالنے کی پڑی ہوئی ہے نکل کے گھر سے بھی ہم تو گھر سے بندھے ہوئے ہیں کسی نے دن میں تمام چھاؤں اتار لی ہے یہ برگ و گل تو یوں ہی شجر سے بندھے ہوئے ہیں یہاں بھلا کون اپنی مرضی سے جی رہا ...

    مزید پڑھیے

    شکست کھا کے بھی کب حوصلے ہیں کم میرے

    شکست کھا کے بھی کب حوصلے ہیں کم میرے مرے کٹے ہوئے ہاتھوں میں ہیں علم میرے پناہ گاہ مجھے بھی تو ثور جیسی دے مری تلاش میں دشمن ہیں تازہ دم میرے تجھے میں کیسے بتاؤں کہاں سے کیسا ہوں الجھ رہے ہیں بدستور پیچ و خم میرے کس آسمان کی وسعت تلاش کرتے ہوئے زمیں سے دور نکل آئے ہیں قدم ...

    مزید پڑھیے

    آئی تھی اس طرف جو ہوا کون لے گیا

    آئی تھی اس طرف جو ہوا کون لے گیا خالی پڑا ہے طاق دیا کون لے گیا اس شہر میں تو کوئی سلیمان بھی نہیں میں کیا بتاؤں تخت سبا کون لے گیا دشمن عقب میں آ بھی گیا اور ابھی تلک تم کو خبر نہیں ہے عصا کون لے گیا اپنے بدن سے لپٹا ہوا آدمی تھا میں مجھ سے چھڑا کے مجھ کو بتا کون لے گیا گوہرؔ یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2