Aftab Iqbal Shamim

آفتاب اقبال شمیم

پاکستان کے اہم نظم گو شاعر

An important poet of Nazm from Pakistan

آفتاب اقبال شمیم کے تمام مواد

31 غزل (Ghazal)

    ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا

    ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا سرسراہٹ رینگتے لمحے کی سرکنڈوں میں تھی تھا نشہ ساری فضا میں ناگنوں کے زہر کا تھی صدف میں روشنی کی بوند تھرائی ہوئی جسم کے اندر کہیں دھڑکا لگا تھا قہر کا دل میں تھیں ایسے فساد آمادہ دل کی دھڑکنیں ہو بھرا ...

    مزید پڑھیے

    ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا

    ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا کچھ روشنیٔ طبع ضروری ہے وگرنہ ہاتھوں میں اتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا وہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدم چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا ...

    مزید پڑھیے

    نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

    نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ

    اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ پئے ثبات تغیر پکارتے ہوئے گزرے چھتیں شکستہ ہیں نکلو نئے مکان میں آؤ زمیں کا وقت سے جھگڑا ہے خود نپٹتے رہیں گے کہا ہے کس نے کہ تم ان کے درمیان میں آؤ یہ آٹھ پہر کی دنیا تمہیں بتاؤں کہ کیا ہے نکل کے جسم سے کچھ دیر ...

    مزید پڑھیے

    بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی

    بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی کیا کیا جائے غزل یہ بھی ادھوری رہ گئی رزق سے بڑھ کر اسے کچھ اور بھی درکار تھا کل وہ طائر اڑ گیا پنجرے میں چوری رہ گئی تھی بہت شفاف لیکن دن کی اڑتی گرد میں شام تک یہ زندگی رنگت میں بھوری رہ گئی کیوں چلے آئے کھلی آنکھوں کی وحشت کاٹنے اس گلی میں ...

    مزید پڑھیے

تمام

7 نظم (Nazm)

    منکر کا خوف

    پرانا پاسباں ظل الٰہی کا جسے چاہے کرے منصب عطا عالم پناہی کا اسے ترکیب آتی ہے کسی مضمون کہنہ کو نیا عنوان دینے کی وہ دیدہ ور ہمیشہ سے معین ہے ہمارے راستے کے پست و بالا پر وہ دانا اپنے منصوبے بناتا ہے ہماری فطرتوں کی خاک ظلمت سے ہماری خواہش تکرار کی دیرینہ عادت سے وہ معبد ساز بت گر ...

    مزید پڑھیے

    کایا کا کرب

    اس نے دیکھا وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں کھڑا تھا بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں کسی جلاد کے قدموں کی آوازیں مسلسل سن رہی تھیں آنے والے موسموں کے نوحہ گر مدت سے اپنی بے بسی کا زہر پی کر مر چکے تھے اس نے چاہا بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے مگر شاخوں سے مرجھائے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    آدم زاد کی دعا

    زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر کہ سجدہ کر سکوں یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں تری کوتاہیاں میری انا کی سرحدیں ہیں کیا یہ دیواریں سدا اٹھتی رہیں گی میرے سینے پر بتا یہ رنگیں یہ دوریاں پیدا ہوئی ہیں کس کی دانش سے بتا میرے ...

    مزید پڑھیے

    دیوار چین

    کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک گزر گیا سیل ہمتوں کا بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہ گزر سی پہاڑ چلا چڑھی کمانوں سے تیر پھینکیں تو آسماں گر پڑے زمیں پر رواں دواں وقت کے بہاؤ میں ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئی ہے جھکے ہوئے آسمان کے نیچے جو اس صحیفے ...

    مزید پڑھیے

    آرا کش نے

    الف انا کو کاٹ دیا اپنے سائے پر اوندھا گرنے والا میں تھا لیکن کیا کرتا میرے شہر کی ساری گلیاں بند بھی تھیں متوازی بھی تختیاں ہر دروازے پر ایک ہی نام کی لٹکی تھیں میں کیا کرتا شہر کے گردا گرد سدھائے فتووں کی دیواریں تھیں کوہ شمائل دیواریں جن سے باہر صرف جنازوں کے جانے کا رستہ ...

    مزید پڑھیے

تمام