کل آج اور کل

اپنے مستقبل و ماضی کی فقط سوچ سے تو
ارے نادان کسی طرح پریشان نہ ہو
حال ہی تیرا وجود اور تیری پونجی ہے
خرچ کر اس کو کھلے ہاتھ پشیمان نہ ہو


مانا سننے میں سنانے میں بھلی لگتی ہیں
یا کتابوں میں پڑھی جاتی ہیں ایسی باتیں
پر حقیقت میں پرے ہوتی ہیں سچائی سے
صرف اک فلسفہ ہی رہتی ہیں ایسی باتیں


اپنی یہ زندگی جس موڑ پہ ہے آج کھڑی
راہ اس کی تھے دکھاتے وہ گزشتہ لمحے
تجربے جن سے یہ جینے کا سلیقہ سیکھو
ہیں تمہیں سونپ کے جاتے وہ گزشتہ لمحے


پھر بھی کہتے ہو کہ ماضی کی سیہ رات کہیں
حال کی دھوپ سنہری کو نہ ڈسنے پائے
بیتی یادوں نے بچھائے ہیں جو کچھ جال یہاں
ان سے بچنا ہے تمہیں پاؤں نہ پھنسنے پائے


اور پھر رکھے قدم تم نے جو ان راہوں پر
منزلیں ان کی اسی وقت کا ہے دوجا چھور
کل اگر اک ہے پتنگ آج بنے اس کی ڈور
ہے اثر کل کا وقت حال پہ ایسا پر زور


پھر بھی کہتے ہو کہ بس حال ہی کی پروا کرو
وقت آئندہ محض خواب ہوا کرتا ہے
آج دریا ہے جو حلقے سے بہا کرتا ہے
کل کے اس بحر میں گرداب ہوا کرتا ہے


ہے حقیقت تو یہی کہتے ہو تم حال جسے
کیا تھا کل تک نہیں آئندہ وقت کا ہی قیاس
وقت کے چلتے رہے گر یہ سلاسل یوں ہی
اوڑھ لے گا وہی کل دیکھنا ماضی کا لباس