Abu Mohammad Sahar

ابو محمد سحر

ممتاز نقاد اور شاعر، ادبی تنقید وتحقیق کے حوالےسے کئی اہم کتابیں یادگار چھوڑیں

Prominent critic and poet, authored a number of books

ابو محمد سحر کی غزل

    پھولوں کی طلب میں تھوڑا سا آزار نہیں تو کچھ بھی نہیں

    پھولوں کی طلب میں تھوڑا سا آزار نہیں تو کچھ بھی نہیں خود آ کے جو الجھے دامن سے وہ خار نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو دن کی فضاؤں کا سرگم یا بھیگتی راتوں کا عالم کتنا ہی سہانا ہو موسم دل دار نہیں تو کچھ بھی نہیں کیوں اہل ستم کا دل توڑیں پھر شہر میں چل کر سر پھوڑیں صحرائے جنوں کو اب چھوڑیں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی خاک بسر شعلہ بہ جاں آج بھی ہے

    زندگی خاک بسر شعلہ بہ جاں آج بھی ہے تجھ کو کھو کر تجھے پانے کا گماں آج بھی ہے ایک بے نام سی الجھن ہے دل و جاں پہ محیط ایک غم نام سا احساس زیاں آج بھی ہے خاک سے تا بہ فلک تیری نگاہوں کا طلسم ٹھہرا ٹھہرا سا جہان گزراں آج بھی ہے ترک الفت میں بھی الفت کے نشاں باقی ہیں قافلہ لٹ کے تری ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی سعی بد انجام سے ڈر بھی نہ سکے

    عشق کی سعی بد انجام سے ڈر بھی نہ سکے ہم تری چشم عنایت سے اتر بھی نہ سکے تو نہ ملتا مگر اللہ رے محرومی شوق جینے والے تری امید میں مر بھی نہ سکے برق سے کھیلنے طوفان پہ ہنسنے والے ایسے ڈوبے ترے غم میں کہ ابھر بھی نہ سکے حسن خود حسن مجسم سے پشیماں اٹھا آئینہ لے کے وہ بیٹھے تو سنور ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ

    خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ اب رہ گیا ہے بس غم دنیا کا سلسلہ آباد دور دور ہیں ویراں سے کچھ مقام یہ بستیاں ہیں یا کوئی صحرا کا سلسلہ گردش میں جان و دل ہوں تو کیوں کر ملے سکوں یارو نہیں یہ ساغر و مینا کا سلسلہ دو ہی قدم چلے تھے کسی کی تلاش میں پھر مل سکا نہ نقش کف پا کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ تو نہیں کہ بادیہ پیما نہ آئے گا

    یہ تو نہیں کہ بادیہ پیما نہ آئے گا اے دشت آرزو کوئی ہم سا نہ آئے گا چلنا نصیب زیست ہے یوں ہی چلے چلو اس راستے میں شہر تمنا نہ آئے گا راہ وفا میں قطرۂ شبنم بھی ہے بہت جس سے بجھے گی پیاس وہ دریا نہ آئے گا خود ہو سکے تو اپنے اندھیرے اجال لو اب کوئی صاحب ید بیضا نہ آئے گا اے اہل دل ...

    مزید پڑھیے

    ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے

    ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے جینا ہے گر عزیز تو مرنا بھی سیکھئے یہ کیا کہ ڈوب کر ہی ملے ساحل نجات سیلاب خوں سے پار اترنا بھی سیکھئے ایسا نہ ہو کہ خواب ہی رہ جائے زندگی جو دل میں ٹھانئے اسے کرنا بھی سیکھئے بگڑے بہت کشاکش ناز و نیاز میں اب اس کی انجمن میں سنورنا بھی ...

    مزید پڑھیے

    سب اک نہ اک سراب کے چکر میں رہ گئے

    سب اک نہ اک سراب کے چکر میں رہ گئے کیا پھیر آدمی کے مقدر میں رہ گئے کیا درد مشترک تھا ضمیر سکوت میں کھو کر جو ہم اداس سے منظر میں رہ گئے یہ دشت زیست اور یہ خارا تراشیاں جلوے ہنر کے سینۂ آزر میں رہ گئے دیکھا صنم کدوں کو تو اکثر ہوا خیال وہ نقش جاوداں تھے جو پتھر میں رہ ...

    مزید پڑھیے

    وقت غم ناک سوالوں میں نہ برباد کریں

    وقت غم ناک سوالوں میں نہ برباد کریں کچھ نہ کچھ سعی علاج دل ناشاد کریں عشق کو حسن کے اطوار سے کیا نسبت ہے وہ ہمیں بھول گئے ہم تو انہیں یاد کریں بستیاں کر چکے ویران ترے دیوانے اب یہ لازم ہے خرابہ کوئی آباد کریں تہ میں گو حکمت پرویز ہے رقصاں لیکن کام ہر ایک بنام غم فرہاد کریں حجت ...

    مزید پڑھیے

    بستیاں لٹتی ہیں خوابوں کے نگر جلتے ہیں

    بستیاں لٹتی ہیں خوابوں کے نگر جلتے ہیں ہم وہاں ہیں کہ جہاں شام و سحر جلتے ہیں دل کے ایوان میں افسردہ چراغوں کا دھواں دور کچھ دور وہ یادوں کے کھنڈر جلتے ہیں پھر کسی منزل جاں سوز کی جانب ہیں رواں چوب صحرا کی طرح اہل سفر جلتے ہیں یوں تو پر امن ہے اب شہر ستم گر لیکن کچھ مکاں خود ہی ...

    مزید پڑھیے

    گویا چمن چمن نہ تھا

    گویا چمن چمن نہ تھا ایسا اجاڑ بن نہ تھا خوں سے تر روش روش رنگ گل و سمن نہ تھا خار الم سے تار تار کون سا پیرہن نہ تھا سکۂ‌ دل خراب حال اس کا کہیں چلن نہ تھا آج اگر گزر گیا کل کا کوئی جتن نہ تھا بزم ادب بھی دم بخود کہنے کو کچھ سخن نہ تھا نثر تمام تر فضول شعر اثر فگن نہ تھا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2