پھولوں کی طلب میں تھوڑا سا آزار نہیں تو کچھ بھی نہیں
پھولوں کی طلب میں تھوڑا سا آزار نہیں تو کچھ بھی نہیں خود آ کے جو الجھے دامن سے وہ خار نہیں تو کچھ بھی نہیں ہو دن کی فضاؤں کا سرگم یا بھیگتی راتوں کا عالم کتنا ہی سہانا ہو موسم دل دار نہیں تو کچھ بھی نہیں کیوں اہل ستم کا دل توڑیں پھر شہر میں چل کر سر پھوڑیں صحرائے جنوں کو اب چھوڑیں ...