Absar Abdul Ali

ابصار عبد العلی

ابصار عبد العلی کی غزل

    جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی

    جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی دیکھ کر اس کو جو دیکھا زندگی اچھی لگی تھک کے سورج شام کی بانہوں میں جا کر سو گیا رات بھر یادوں کی بستی جاگتی اچھی لگی منتظر تھا وہ نہ ہم ہوں تو ہمارا نام لے اس کی محفل میں ہمیں اپنی کمی اچھی لگی وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے پھول سی ...

    مزید پڑھیے

    تیر اندازوں کو اندازہ نہیں

    تیر اندازوں کو اندازہ نہیں زد میں آنا تھا جسے آیا نہیں کچھ تصور کچھ توقع کچھ گماں یہ بھی کیا خوابوں کا خمیازہ نہیں ساری بستی میں فقط اک تیری ذات قبلہ و کعبہ سہی کعبہ نہیں جس ہوا میں تو ہے آقائے چمن کوئی بھی جھونکا وہاں تازہ نہیں دھول کی آنکھوں میں جا ہوتی نہیں پاؤں میں لگتا ...

    مزید پڑھیے