آرٹ گیلری میں ایک تصویر

صبح سویرے سڑکوں پر جاتے اونٹوں کے گلے میں
بولتی گھنٹی کی آواز ہوا کے تیروں سے زخمی ہے
اور کسی کی نظر نہیں ہے
دور سفر پر گئے ہوؤں کے رستوں پر ان گنت دعائیں بچھی ہوئی ہیں
اور کسی کو خبر نہیں ہے
سب دیکھے ان دیکھے دکھ
آسیب زدہ تحریروں کو چہرے پر ملتے پھرتے ہیں
اور کئی برس سے یوں ہوتا ہے
دریا سونا مٹی پیچھے چھوڑ آتے ہیں
صحرا کو آبادی کے ساحل پر پھیلاتے آگے بڑھ جاتے ہیں
رزق کے پیچھے بھاگتی آنکھیں جسموں کے ڈھانچوں میں الجھ گئی ہیں
کوئی بساط وقت پہ رکھے مہروں کو چلنے سے پہلے
ایک نظر ان سب چہروں پر ڈالتا ہے
پھر اک مہرہ چل دیتا ہے
دور پہاڑوں کے اس جانب جلتا سورج رات کے خیموں میں چپ بیٹھا
آنے والے کل کی بابت سوچ رہا ہے