عقل کا ظرف جدا ہوش کا پیمانہ جدا
عقل کا ظرف جدا ہوش کا پیمانہ جدا
حسن اور عشق کا دونوں سے ہے افسانہ جدا
عشق کا بار امانت کہاں کم مایہ کہاں
دین بلبل کا جدا مشرب پروانہ جدا
دل میں ہے کرمک شب تاب کے بھی آگ نہاں
لیکن اس آگ سے ہے سوزش پروانہ جدا
کب برے وقت میں ہوتا ہے کسی کا کوئی
شمع گل ہوتے ہی ہو جاتا ہے پروانہ جدا
گلشن دہر میں جب بوئے وفا عنقا ہو
کیا کرے گر نہ رہے سبزۂ بیگانہ جدا
عشق بازوں سے نہیں بو الہوسوں کو نسبت
ان کا معیار جدا ان کا ہے پیمانہ جدا
تیغ قاتل کے رہے سامنے ہم سینہ سپر
مرتے مرتے نہ ہوئی ہمت مردانہ جدا
چشم بینا میں ہیں یہ دونوں جگہ منزل یار
نہ رہ کعبہ جدا نہ رہ بت خانہ جدا
ذرے ذرے میں ہے کونین کے اس کا ہی ظہور
دونوں عالم سے ہے پھر جلوۂ جانانہ جدا
میری ہی آنکھوں پہ غفلت کا پڑا تھا پردہ
شاہد حسن ازل مجھ سے ہوا تھا نہ جدا
ضبط الفت کہیں ممکن ہے تنک ظرفوں سے
تابش شمع جدا سوزش پروانہ جدا
نالۂ آتش غم اور بھڑک اٹھتا ہے
شمع کے ہو جو تصور میں بھی پروانہ جدا
ہے سخن میں مرے اک جدت تازہ طالبؔ
میرا مضموں جدا عنواں جدا افسانہ جدا