اپنی خطا کہ رکھ کے دل ذوق خلش نہ پا سکے
اپنی خطا کہ رکھ کے دل ذوق خلش نہ پا سکے
عقل کی جھڑکیاں سہیں پر نہ فریب کھا سکے
ہجر بھی ایک وہم ہے وصل بھی اک فریب تھا
کھو کے نہ تم کو کھو سکے پا کے نہ تم کو پا سکے
تیری نظر نے بزم میں اٹھ کے ہمیں بٹھا دیا
اٹھے تو بار بار ہم اٹھ کے مگر نہ جا سکے
جرأت ترک عاشقی مجھ سے نہ ہو سکی کبھی
اپنے کو آزما لیا تم کو نہ آزما سکے
کہتے ہیں معرفت جسے وہ بھی ہے اعتراف عجز
اس کو خدا سمجھ لیا جو نہ سمجھ میں آ سکے
عشق اسی کا مستند شوق اسی کا معتبر
تیری نگاہ سے بھی جو راز نظر چھپا سکے
بس اسی تلخ یاد پر ختم ہے داستان دل
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
آئے وہ میکدے میں کیوں اس کی جگہ حرم میں ہے
آنکھ بچا کے جو پئے پی کے نہ لڑکھڑا سکے
وہ جو ہے بندۂ وفا کہتے ہیں سب جسے رضاؔ
اس کی بھلا مجال کیا تم سے نظر ملا سکے