اپنی ہر ہار پہ اک جشن مناتے رہیے
اپنی ہر ہار پہ اک جشن مناتے رہیے
زندگی بوجھ سہی بوجھ اٹھاتے رہیے
کوئی آنے کے لیے کوئی تو ہو اندر بھی
فلسفے چھوڑیئے زنجیر ہلاتے رہیے
راہ چلنے کے لیے پاؤں ضروری تو نہیں
سر نہیں نہ سہی دستار سجاتے رہیے
کیا ضروری ہے کہ ہر کام سلیقے سے ہو
جذبے ٹھنڈے سہی سگریٹ جلاتے رہیے
کوشش رکنیت اردو اکیڈمی نہ سہی
کم سے کم شعری پلندے تو چھپاتے رہیے
آگہی جرم ہے بے سود ہے بے داری وسیمؔ
آپ بھی سوئیے اوروں کو سلاتے رہیے