عکس در عکس
وہ ایک بڑا سرکاری پاگل خانہ تھاایک شام وہاں کہرام مچا ہوا تھا۔پاگل خانہ کے ملازم حسبِ دستور پاگلوں کو قابو میں لانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔جن میں ایک پاگل کو بے قابو ہونے پر بری طرح پیٹا جا رہا تھا۔اس کی تڑپ اورچیخوں سے پاگل خانہ کی دیواریں کانپ رہی تھیں۔وہ تاب نہ لاکر زمین پر منہ کے بل گر پڑا۔بری طرح پٹ جانے کے سبب اس کے منہ سے دلسوز اور دلخراش انداز میں صرف اللہ۔۔اللہ ۔۔نکل رہا تھا۔اس کے بعدشور مچانے کی اس میں ہمت باقی نہ رہی۔ گارڈز کو جب اطمینان ہوا تووہ اسے کھینچتے ہوئے لاکر کمرہ میں کر رخصت ہو گئے۔ تقریباً آدھے پونے گھنٹہ کے بعد جب درد میں کمی محسوس ہوئی تو وہ حسبِ عادت بڑبڑانے لگا۔نہیں چھوڑوں گا ۔۔کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔ایک ایک کو دیکھ لوں گا۔۔۔سب کو مزہ چکھاؤں گا۔ ایک بار نوکری مل جانے دو۔۔۔ سب کی چھٹی کر دوں گا ۔۔۔۔ اس کی اس بڑبڑاہٹ پر سارے پاگل تالیاں بجانے اور قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔
اس کا نام شیخ احمد تھا لیکن پاگل خانہ میں شیخو کے نام سے پکاراجاتا تھا۔اسے یہاں آئے چار ماہ گذرے تھے وہ ایک تعلیم یافتہ موٹا تازہ نوجوان تھاجس کی عمر تقریباًچوبیس پچیس سال تھی۔وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔اس نے بڑی محنت مزدوری کر کے تعلیم حاصل کی تھی۔تعلیم سے فراغت کے بعد حصول ملازمت میں سر گرداں رہنے لگا۔مگر یہ رشوت اور سفارش کے بغیر ناممکن تھی ۔ہر طرف رشوت کے اجگر منہ کھولے ہوئے تھے اور سفارش بھی منہ چڑا رہی تھی اور یہ دونوں چیزیں اس کی دسترس سے دور اور جوئے شیر لانے کے برابر تھیں۔اس کے باوجود وہ ملازمت کی خاطر مسلسل تگ و دو کرنے لگا۔اخبارات میں ملازمت کے اشتہارات دیکھتا ، عرضداشت روانہ کرتااور انٹرویو آنے پرہاتھ میں تمام دستاویزات تھامے وقت سے پہلے حاضر ہوجاتاتھا۔لیکن اس سے پہلے اس کی بد نصیبی وہاں پہنچ جاتی اور وہ مایوس لوٹ آنا تھا۔ اسی جدوجہد میں کئی سال گذر گئے۔آخر کار ان صعوبتوں سے تنگ آکر وہ بھی بے روز گار نوجوانوں کی ٹولی میں شامل ہو گیا جو عموماً احتجاج کرنے کے عادی تھے۔ ایک دن وہ دوپہر کے وقت خالی پیٹ ایک دفتر میں انٹرویو دے کر مایوس لوٹ رہا تھا۔ اچانک احتجاجی نعروں کی آواز سنائی دی۔قریب جاکر دیکھا تو وہاں بہت سے بے روزگار نوجوان ایک وزیر کے جلسے میں خلل ڈالتے ہوئے نعرے بازی کر رہے تھے۔وہ بھی وقت اور حالات کا مارا تھا ان میں شامل ہو گیا۔پولس والوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر وہ آپے سے باہر ہوگئے تھوڑی ہی دیر میں بھگدڑ مچ گئی ۔جب معاملہ حد سے تجاوز کر گیا توپو لس نے لاٹھی چارج کرنا شروع کر دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے نوجوان وہاں سے بھاگ گئے اور چند زخمی ہو گئے۔اس دوران شیخو کے سر پر ایک زبردست مار پڑی اس کا سر چکرانے لگا۔مزید مار پڑنے پروہ زخمی ہو کر گر پڑا۔خون میں لت پت شیخو کو ہسپتال پہنچایا گیا۔چند دن کے علاج اور تشخیص کے بعد اسے پاگل قرار دے کر سرکاری پاگل خانہ میں بھیج دیا گیا۔
پاگل خانہ میں شیخو دوسروں سے الگ تھلگ گم سم رہتا، اس پر اکثرپاگل پن کے دورے پڑ تے تھے ۔جب بھی دورے پڑتے ردی کے کاغذات اکٹھا کر فائل کی مانند بنالیتا۔ کبھی پاگلوں سے ،کبھی ملازمین سے اورکبھی ڈاکٹروں سے ملازمت کی گذارش کرتے ہو ئے ادھر ادھر پھرنے لگتا تھا۔ہسپتال کے چند لوگ اس کی حرکتوں پر ترس کھاتے تھے اور بہت سے تنگ آچکے تھے۔ ڈاکٹر اسے دیکھتے ہی فوراً بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ حسبِ عادت ایک دن وہ ہر ایک سے نوکری کی اپیل کرتے ہوئے کہنے لگا۔
بھیّا۔میں گرایجویٹ ہوں ، مجھے نوکری دلادو ، یہ دیکھو میری ڈگری سرٹیفکیٹس۔۔۔میں نے بڑی مشکل اور محنت سے اسے حاصل کیا ہے۔اللہ کے لئے مجھے نوکری دے دو۔۔مجھے نوکری دے دو۔۔۔۔مگر اس پاگل کی یہاں کون سننے والا تھا۔جب کہ عقلمندوں اور ہوشمندوں کی دنیا میں ہی اس کا کوئی ہمنوا اور ہمدرد نہ بن سکا تھا اور اس کا مداوا نہ کر سکاتھا۔ یہاں پر کم از کم کبھی کوئی اس پہ رحم کی نگاہ ڈالتا تو کوئی حقارت سے اسے دیکھتا ہوا چلا جاتا۔ کوئی ملازم آنکھیں دکھاتا اورکوئی دھکا دے کر گذر جاتا اور کوئی بری طرح چڑ جاتاتھا۔اگر شیخوکسی سے ضد کرنے لگتا تو وہ سختی سے ڈانٹتا یا مار دیتا۔جیسے ہی مار پڑتی وہ چیخنے پر آمادہ ہو جاتا۔دیکھو اگر مجھے نوکری نہیں ملی تو بہت برا ہوگا۔۔۔ہنگامہ مچا دوں گا۔۔۔۔دیکھ لینا احتجاج کرادوں گا۔۔۔۔سب کو ماردوں گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔پھر چند ہی لمحوں میں وہ پگھل کر نرم ہوجاتا اور پھر سے نوکری کی گذارش کرنے لگ جاتاتھا۔بھیّا! مجھے نوکری کی سخت ضرورت ہے،میرے ماں باپ اور بھائی بہن بھوکے ہیں مجھے انہیں پالنا ہے،مجھے نوکری دلا دو۔۔۔۔نوکری دے دو۔۔۔۔اسی طرح بڑبڑاتے ہوئے وہ آپے سے باہر ہوکر پتھر پھینکنے لگتا اور احتجاجی نعرے لگاتے لگاتے نعروں کا انداز بدل دیتا اور نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنے لگتا۔ان نعروں کی صداؤں پردیگر پاگل اکٹھا ہو جاتے ۔چند پاگل اس پر بے تحاشہ ٹوٹ پڑتے اور وہ زخموں سے چور زمین پر گر جاتا تھا۔
ان پاگلوں کے درمیان ایک پرکاش بابو بھی تھے۔جنہوں نے آزادی سے پہلے کے ہندوستان کو اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھا تھا بلکہ گاندھی جی کے ساتھ جد وجہدِ آزادی میں حصّہ بھی لیا تھا۔اب ان کے ماتھے کی جھریّاں ان کی ضعیفی کی چغلی کھا رہی تھیں۔ان کی ماند، لاغر و لاچاراور بے بس آنکھیں اس طرح کے تماشے چپ چاپ دیکھتی رہتیں اور آنسو بہاکر خاموش رہ جاتی تھیں۔وہ نہایت مہذب اور شائستہ انسان معلوم ہوتے تھے انہیں صرف پاگل خانے کے احوال ہی کا علم نہیں تھا بلکہ ملک کی موجودہ صورتِ حال سے بھی وہ واقف تھے ۔انہیں اخبار بینی اور کتب بینی کا شوق تھا۔ان کی شرافت ،شائستگی اور سنجیدگی کا احترام کرتے ہوئے پاگل خانہ کے گارڈز اور عہدہ دار انہیں باسی اخبارات دے دیا کرتے تھے۔ ملک میں ہر آئے دن رونما ہونے والے نت نئے مسائل، سیاسی صورتِ حال اور سیاست دانوں کی کارستانیاں اور اوباشیاں، فسادات اور بم باری کی بدولت معصوموں کی جاں تلفی وغیرہ کی خبریں پڑھ کر مایوس ہو جاتے تھے اس لئے کہ ان میں کچھ ہوش باقی تھا۔وہ باہر کی دنیا سے پاگل خانہ کو ترجیح دیتے تھے اکثرپاگل خانہ اور باہر کی دنیا پر آنسو بہاتے تھے۔ ڈھلتی عمر ، اپنوں کی بے مروتی ، پاگل پن اور اکثر رونے کی وجہ سے ان کی بینائی کمزور پڑنے لگی تھی۔ وہ اکثر ’’ایشور اللہ تیرو نام ، سب کو سنمتی دے بھگوان ‘ ‘ کا جاپ کرتے رہتے تھے۔جب بھی خاموشی کے وقت میٹھی اور سریلی آواز میں وہ یہ راگ الاپنے لگتے توبہت سے پاگل ان کے پاس جمع ہوجاتے تھے۔ ان کے گلے میں ایک پھٹی پرانی تھیلی ہوا کرتی جس میں چند کاغذات اور ایک ٹوٹا پھوٹا لکڑی کا چوکٹھارکھا ہوتا جو کہ ایک فریم نماتھا۔ جب پاگل پن غالب آتا تو وہ تھیلی سے فریم نکال کر سب کو دکھاتے ہوئے کہتے۔۔۔یہ دیکھو ۔۔۔۔ہمارے پتاما گاندھی جی ،ان کے ساتھ دیکھو میری تصویر ہے۔یہ گاندھی جی! اور یہ میں ہوں ۔۔۔۔دراصل وہ ایک خالی فریم تھا۔اسی طرح تھیلی میں سے لوہے کا ایک سکّہ نما ٹکڑا نکال کر دکھاتے ہو ئے یہ کہتے۔۔۔۔دیکھو دیکھو۔۔۔۔آزادی کے بعد میری ہمّت اور بہادری کی ستائش کرتے ہو ئے نہرو جی نے مجھے سورن پدک دیا تھا۔ دیگر پاگل تعجب خیز نگاہوں سے انہیں دیکھتے ،ان کی باتیں سنتے ، بہت سارے خوشی کے مارے ناچ اٹھتے تھے توکبھی کبھی آپے سے باہر ہو جاتے تھے۔ پرکاش بابو بھی ان کے ساتھ بڑ بڑانے لگتے اور کہتے کہ ملک کے حالات بگڑ چکے ہیں،یہاں امن وسکون غارت ہو چکا ہے ،ہر طرف ہنساعام ہوچکی ہے۔اب پھر سے ستیہ اور اہنسا کے لئے جد و جہد کرنی ہے اور ملک میں ایک انقلاب لانا ہے۔میں انقلاب لاؤں گا اور سب کو مکتی دلادوں گا۔ان کی باتیں سن کر پاگل جوش میں آجاتے اور بآواز بلند انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کرتے تھے۔چند ہی لمحوں میں پاگل خانے کی دیواریں ان گرجدارصداؤں سے لرز جاتیں۔جیسے ہی شیخو کے کانوں کویہ آواز سنائی دیتی وہ بے اختیار ہوجاتا اور انقلاب زندہ باد کے دو ایک نعروں کے بعد فورنعرۂ تکبیر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنے لگتا۔چند باہوش پاگلوں کو ان نعروں کا مطلب اور مقصد معلوم ہوتا وہ مارے جوش کے عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتے ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھا پائی شروع ہوجاتی۔ہسپتال کا عملہ فوراًپہنچ کر انہیں قابو میں لانے کی کوشش کرتا۔بقیہ پاگل تھوڑی دیر میں اپنی حرکتوں سے باز آجاتے اورخاموش ہوجاتے مگرشیخوجلد خاموش نہیں ہوپاتا تھا۔ملازمین اسے چپ کراتے ہوئے تھک جاتے اور وہ قابو میں نہ آتا تو اسے پیٹنا شروع کر دیتے تھے ۔آج بھی ایسا ہی ہواتھا۔جس کی وجہ اسے بری طرح مار کر قابو میں لایا گیا تھا۔
پاگل خانہ کاعجیب و غریب منظررہتاتھا۔ایک پاگل ہمیشہ ایک اونچے ٹیلہ پر کھڑا ہو کرسیاسی لیڈر وں کی مانندہمیشہ مندر مسجد کے نازک مسئلہ پر دھواں دھار بھاشن کرتا رہتا تھا۔دوسرا پاگل پہلوانوں کی طرح مٹی اٹھا اٹھا کر اپنے بدن پر ڈالتے ہوئے کشتی کے کرتب دکھاتا اور ہر ایک کو مقابلہ کے لئے دعوت دیتا رہتا تھا۔ایک پاگل بالٹی پانی میں مچھلیاں پکڑنے میں ہمیشہ مصروف رہتا تھا۔ ایک اور پاگل جس کا نام شمبھو تھا اکثر اپنے کندھے پر بندوق کی طرح ایک لکڑی رکھے سب کو دھمکانے ،ڈرانے اور خوف زدہ کرنے میں اپنی خوشی محسوس کرتا تھا۔کبھی کبھی یہ کہتے ہوئے ادھر ادھر پھرنے لگتا کہ دشمن ہم پر حملہ آور ہو رہا ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ہر ایک کو مار دوں گا ایک ایک کو موت کے گھات اتار دوں گا۔دنیا میں میرے دیش کا نام اونچا کروں گا۔ہے کسی میں ہمّت جو میرے دیش کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔۔۔ اکثر پاگل اس کی اس حرکت پر حیران رہ جاتے ،بعض اسے بہادر مانتے تو بہت سارے اسے اپنے دیش کا محافظ سمجھتے تھے۔
یہاں ایک اور پاگل تھا جو گارڈز یا پاگلوں کے ہاتھوں کسی کومار کھاتے اور پٹتے ہوئے دیکھ کر ہمیشہ خوش ہوتا تھا جس کا نام ہریش تھا۔مگرسب اسے ہری کہتے تھے وہ بھی شیخو کی طرح جوان اورتقریباً اس کا ہم عمر تھا۔یہ دونوں بلا وجہ ہمیشہ ایک دوسرے سے الجھتے اور جھگڑتے رہتے تھے۔جس طرح شیخو کو نوکری حاصل کرنے کا جنون طاری تھا اسی طرح ہری کوبھی ایک ہی جنون طاری تھا کہ پاگل خانے میں ایک بڑا اور شاندارمندرہو۔اس کی خواہش تھی کہ ساراپاگل خانہ ایک بڑے مندر میں تبدیل ہو جائے۔مگر وہ بے بس اور مجبور تھا۔وہ ہر وقت مندر کے پلان بناتا۔اطراف و اکناف پڑے ہوئے اینٹ اور پتھر کے ٹکڑے جمع کرکے مندر کا ڈھانچہ بناتا اور ڈھانچہ تیار ہوتے ہی مارے خوشی کے ناچتے ہوئے جئے بجرنگ بلی کے زور دار نعرے لگاتا۔پھر دوسرے ہی لمحہ مندر کا ڈھانچہ گرادیتا تھا۔ہری کی یہ حرکت شیخو کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ہری جئے بجرنگ بلی پکار اٹھتا تو یہ شیخو پر گراں گذرتا اور اس سے رہا نہیں جاتا۔اس کے منہ سے بے ساختہ نعرۂ تکبیر اللہ اکبر نکل جاتا۔دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے پاگل اکٹھا ہو جاتے تھے۔پرکاش بابو کے ہوش بجا ہوتے تو وہ وہاں فوراً پہنچ جاتے اور ان کو روکنے کے لئے شانتی ، شانتی کہتے ہوئے ادھر ادھر پھرنے لگتے، جب پانی سر سے اونچا ہوتا دکھائی دیتا تو ایک کنارے کھڑے ہو کر ’’ ایشور اللہ تیرو نام ، سب کو سنمتی دے بھگوان ‘‘ کا راگ الاپنے لگتے ۔تھوڑے پاگل ان کی آواز میں آواز ملاتے اور تھوڑی دیر بعد خاموشی چھا جاتی تھی۔
ایک دن شام کے وقت تمام پاگل حسبِ معمول اپنے اپنے حال میں مست تھے۔کوئی حسبِ عادت مندرمسجدکے مسئلہ پر تقریر کر رہا تھا ، کوئی پہلوانی کے کرتب دکھا رہا تھا۔شمبھو پر بھی اس دن شدید دورہ پڑا ۔وہ بندوق کی طرح کندھے پر لکڑی تھامے ہر ایک کو دھمکاتے ہوئے پھر رہا تھا۔غرض ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی ۔اس دوران شیخو پر بھی دوررہ پڑ گیا۔وہ اپنی عادت کے مطابق نوکری کا مطا لبہ کرتے ہوئے پھرنے لگا۔اللہ کے لئے مجھے نوکری دے دو۔۔۔۔میں ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں ۔۔۔۔میں بہت پڑھا لکھا ہوں۔۔۔۔ مجھے نوکری دلا دو۔۔۔۔یہ سن کر ایک پاگل نے اسے اپنی طرف بلاتے ہوئے کہنے لگا۔ ابے او شیخو! ادھر آ۔میں تجھے نوکری دوں گا۔ جب شیخو اس کے قریب آیا تو اس نے شیخو کے سر پر ایک بھر پور وار کر دیا ۔شیخو کے سر سے خون بہنے لگا۔شیخو کو زخمی دیکھ کر ہری مارے خوشی کے ناچتے ہوئے جئے بجرنگ بلی،جئے بجرنگ بلی کے نعرے بلند کرنے لگا۔پرکاش بابو یہاں بھی شانتی شانتی کہتے ہوئے ایشور اللہ تیرو نام سب کو سنمتی دے بھگوان گانے لگے۔بعض پاگل ان کے ساتھ آواز ملانے لگے اسی اثنا میں گارڈز اور دیگر ملازمین بقیہ پاگلوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔اس طرح کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آنے لگے۔ہری اور شیخو کی حرکتوں سے تمام ملازمین بخوبی واقف تھے اور تنگ آچکے تھے۔وہاں پیش آنے والے تمام ہنگاموں کے لئے ان دونوں کو قصوروار ٹہرایا جاتا تھااور عموماً شیخو کو ہی زیادہ موردِ الزام ٹہرایا جاتا تھا۔آج کی اس حرکت کے پیچھے بھی انہیں شیخو کی ہی سازش معلوم ہوئی اور اسی کو قصور وار ٹہرایا گیا۔لیکن دونوں کو خطر ناک قرار دیتے ہوئے انہیں الگ الگ کمروں میں ڈال دیاگیا۔
شیخو اپنے کمرہ میں تنہا گھنٹوں تنہا کھڑا ہو کر کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے سوچوں میں غرق رہنے اور اکثر کھانے سے بھی انکار کرنے لگا۔ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ کھانے کے لئے کچھ دیا گیا تو اس نے کھانا دینے والے ملازم سے اصرار کرنے لگا ۔مجھے کھانا نہیں ، نوکری چاہیئے۔مجھے نوکری دلادو ،مجھے کمانا ہے اور اپنے ماں باپ کی خدمت کرنی ہے ، وہ بھی میری طرح بھوکے ہوں گے۔مجھے اب معلوم ہو چکا ہے کہ رشوت کے بغیر نوکری نہیں ملے گی ۔اس لئے میں اب رشوت دینے کے لئے تیار ہوں ، میرے پاس اب بہت سے روپیئے ہیں اور میرے پاس پرکاش بابو کی سفارش بھی ہے۔پرکاش بابو میری ضرور سفارش کریں گے۔یہ سن کر ملازم کی آنکھیں بھر آئیں،اس نے نہا یت نرمی سے کہا۔دیکھو شیخو ! تمہیں نوکری مل جائے گی ، پہلے کچھ کھا لو۔کل بڑے بابو سے کہہ کر میں تمہاری نوکری کاضرور انتظام کروادوں گا۔شیخو نے ضد کرتے ہوئے کہا۔مجھے کل نہیں ابھی نوکری چاہیئے ورنہ میں ہرگز نہیں کھاؤں گاملازم نے شیخو کی بگڑتی ہوئی حالت پر ترس کھاتے ہوئے کہا۔اچھا بابا،تم آج ہی لکھ کرایک عرضی دے دو، میں تمہاری نوکری کا بندوبست کروادوں گا۔شیخو یہ سنتے ہی مارے خوشی کے کاغذات مروڑکر دیتے ہوئے ملازم سے کہنے لگا ، یہ لو عرضی اور یہ خط بھی لو ، میرے باباکو بھیج دو اور انہیں کہہ دو کہ مجھے جلدی ہی نوکری ملنے والی ہے۔ملازم کاغذات لے کر وہاں سے چلا گیا مگر شیخو نے کھانا نہیں کھایا۔اکثر بھوکا رہنے کی وجہ سے اس کی جسامت دن بدن گھٹتی گئی اور مسلسل کھڑے ہونے کی وجہ سے اس کے دونوں پاؤں میں سوجھن آنے لگی ۔گذشتہ چند دنوں سے ملاقات کے لئے اس کے والدین اور رشتہ دار بھی نہیں آئے۔جس سے وہ مزید پریشان اور مایوس رہنے لگا۔
ادھر ہری اپنے کمرہ میں بیٹھے سے بیگار بھلی کے مصداق مندر کے نقشے بنانے لگاکوئلے یا اینٹوں کے ٹکڑوں سے دیواروں پر مندر کے نقشے بناتا ، خوش ہوتا اور کہتا ، میں ایسا ہی مندر بناؤں گا۔ نقشہ کو بغور دیکھتے ہوئے کہتا ۔ یہاں سے داخلہ ہو گا ،وہاں مہا دوار ہوگا ،یہاں کھڑکیاں ہوں گی ، وہاں بھگوان کی مورتی ہوگی ۔ پھر کہتا یہاں نہیں وہاں کھڑکیاں ہو گی یہاں مہا دوار ہوگا، یہاں نہیں وہاں ،وہاں نہیں یہاں ، یہاں ۔۔وہاں۔۔وہاں ۔۔یہاں۔ اسی کشمکش میں اس کے ذہن میں بھونچال سا آ جاتا اور وہ مندر کا نقشہ مٹاتے ہوئے بے اختیار جئے بنجرگ بلی کے نعرے بلند کرنے لگ جاتا تھا۔
اسی طرح کئی دن گذر گئے ۔ایک دن پاگل خانہ میں وزیرِ صحت کی آمد کا اعلان ہوا کہ وہ پاگل خانہ میں تعمیر شدہ ایک نئی عمارت کا افتتاح کرنے والے ہیں۔تقریباًایک ہفتہ سے ہی باہوش اور نیم پاگلوں کو ٹریننگ کے ساتھ ساتھ نصیحت اورسخت تاکید بھی کی گئی کہ کوئی اودھم نہ مچائے۔ ادھر پچھلے چند دنوں سے شیخو اور ہری کی طبیعت میں تھوڑی سی تبدیلی رونما ہو نے لگی تھی۔لہذا انہیں بھی خصوصی تاکید کے ساتھ جلسہ میں شرکت کی اجازت دی گئی۔جن پاگلوں کے ہوش بجا نہیں تھے انہیں کمروں میں ہی بند رکھاگیا۔
جلسہ کے دن پاگلوں کورگڑ رگڑکے نہلا دھلا کر یونیفارم پہنا دیا گیا ۔کئی گھنٹے انتظار کروانے کے بعدحسبِ عادت منتری جی کالے شیشوں اور لال بتّی کی ایک بڑی کار میں نہایت شان و شوکت کے ساتھ پاگل خانہ میں تشریف لائے ان کے ساتھ وزیرِ داخلہ بھی وارد ہوئے ۔رسمی ملاقات اوربات چیت کے بعد نئی عمارت کاافتتاح ہوا اور منتظمین کے ساتھ تمام پاگل خانہ کامعائنہ کیا۔اس کے فوری بعد انہیں جلسہ گاہ لایا گیا۔ تعارف اوراستقبال کے بعددو ایک تقاریرہوئیں۔اس کے بعد وزیرِ داخلہ کی باری آئی۔جیسے ہی وہ تقریر کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔پرکاش بابو ، اپنے گرد آلودہ ٹوٹے ہوئے موٹے موٹے شیشوں کی عینک سے گھورتے ہوئے منتری جی کو دیکھ کر بغل میں بیٹھے ہوئے ایک پاگل سے آہستہ کہنے لگے۔ ارے یہ کب منتری بن گیا۔۔۔۔یہ وہی کشوری لال ہے جو آزادی سے پہلے گوروں کا چمچہ تھا، ہمارے اندولن کی ہر ایک خبر ان کو دیتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے اسی کم بخت نے ایک مرتبہ ہماری اسکیم سے انہیں آگاہ کر کے ہمیں جیل بھیج دیا تھا۔۔۔۔ہائے بھگوان ! تیری لیلا بھی کیا نیاری ہے۔
منتری جی بآواز بلند تقریر کرتے ہوئے پاگلوں کو یقین دلا رہے تھے کہ جلد ہی اس پاگل خانہ کو ہائی ٹیک بنایا جائے گا، پاگلوں کے علاج اور انہیں راہِ راست پر لانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ساتھ ہی ہر پاگل کو اس کے پاگل پن کی بنیاد پر کمروں کا معقول انتظام کیا جائے گا۔جس کے لئے اگلے بجٹ میں ایک ہزار کروڑ روپیئے مختص کئے جائیں گے اور بڑے بڑے کمرے تعمیر کئے جائیں گے۔
یہ سن کرہری سے رہا نہیں گیاوہ فوراًکھڑا ہو کر کہنے لگا۔۔۔منتری جی مجھے یہاں ایک بڑامندر بھی چاہیئے۔۔۔۔ہاں بھئی بیٹھ جاؤ ، تمہارے لئے ضرور ایک مندر بنایا جائے گا۔منتری جی نے نہایت اطمینان سے ہری کو تسلّی دیتے ہوئے کہا۔اتنے میں شیخو کھڑا ہو گیااورہری کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے کہنے لگا۔۔۔ابے او ہری کے بچّے ! تجھے مندر کی پڑی ہے میں یہاں نوکری نہ ملنے پر کئی دنوں سے بھوکا ہوں۔وہ فوراً منتری جی کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا۔ مجھے دیکھئے صاب !میں گرایجویٹ ہوں۔میں بہت پڑھا ہوں صاب۔مجھے نوکری چاہیئے مجھے نوکری دلا دیجیئے صاب۔شیخو اپنی جیب میں چھپا کر لائے ہوئے چند کاغذات نکال کرفائل کی طرح تھامے منتری جی سے بار بار اصرار کرنے لگا۔یہ دیکھئے صاب میرے سرٹیفیکیٹس اور دستاویزات اس فا ئل میں ہیں ۔مجھے نوکری دلائیے صاب میں خوب محنت کروں گا ، میں بہت ایماندار ہوں صاب۔۔۔۔میرے ماں باپ بھوکے غریب اور محتاج ہیں صاب۔۔۔۔ اللہ کے لئے مجھے۔۔۔۔منتری جی اسے کچھ جواب دینے کی بجائے محافظ دستوں کی طرف غصّہ سے گھورتے ہوئے اسے خاموش کرانے اور بٹھانے کے لئے آنکھوں سے اشارے کرتے رہے شیخو اسی طرح اپنی دھن میں رٹ لگائے جا رہا تھا۔ایک حوالدار نے اسے بٹھانے کی کوشش کی وہ جب نہیں بیٹھا تو حوالدار نے زبردستی کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا۔شیخو ہاتھ جھٹک کر پھر اصرار کرنے لگا۔منتری جی مجھے نوکری چاہیئے ، مجھے نوکری دے دو ، ورنہ میں احتجاج کروں گا، میرے ساتھ کئی لوگ ہیں جو میری آواز پر جمع ہو جاتے ہیں ۔شیخو پاگلوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔ کیوں بھائیو ! کیا تمہیں بھی نوکری نہیں چاہیئے۔۔۔۔سب پاگل ایک ساتھ اٹھ گئے اور شور مچانے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے بھگدڑ مچ گئی اور ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔منتری جی وہاں سے اپنی ٹوپی اور دھوتی سنبھالتے ہوئے پیچھے کے دروازہ سے بھاگ گئے۔حالانکہ اسٹیج تک کسی بھی پاگل کی رسائی ممکن نہیں تھی،ہر طرف موٹی موٹی لکڑیوں سے فصیل بنائی گئی تھی۔ پھر بھی احتیاطً منتری جی نے وہاں سے نو دو گیارہ ہونے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی اوررفو چکر ہو گئے۔
پرکاش بابو اس بھگدڑ کے درمیان شانتی شانتی کہتے ہوئے ادھر ادھرپھرنے لگے اور تھک کر ایک اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر حسبِ معمول ’’ ایشور اللہ تیرو نام، سب کو سنمتی دے بھگوان ‘‘ زور دار آواز میں گانے لگے۔مگر آج ان کی اس آواز میں آواز ملانے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے۔ہر طرف ایک کہرام مچا ہوا تھا۔پرکاش بابو اسی طرح آنکھیں بند کئے گا رہے تھے پیچھے سے ایک پاگل نے ان کے سر پر موٹی لکڑی سے بھرپور وار کر دیا۔وہ شانتی شانتی کہتے ہوئے منہ کے بل گر پڑے ۔پاگل خوشی کے مارے ناچنے لگا۔ان کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے ۔اس کے بعد وہ اس بھگدڑ میں پاگلوں کے پیروں تلے آگئے۔
شیخو اب بھی مجھے نوکری دلادو ، مجھے نوکری چاہیئے کہتے ہوئے ادھر ادھر پھر رہا تھا۔شمبھو جو ہمیشہ لکڑی کو بندوق بنائے سب کو دھمکاتے پھرنے کا عادی تھا کسی طرح محافظ دستے کے ایک فرد سے بندوق چھیننے میں کامیاب ہو گیا۔بندوق ہاتھ میں لئے شیخو سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔ابے او شیخو ! ان سے کیا نوکری پوچھتا ہے۔۔۔۔ادھر دیکھ ۔۔۔۔یہاں میرے پاس آ ۔۔۔۔میں تجھے نوکری دوں گا۔۔۔۔شیخو یہ سن کر شمبھو کی طرف لپک پڑا۔جیسے ہی وہ اس کے قریب آیا،شمبھو نے بندوق کا گھوڑا دبادیا،گولی چل گئی اور شیخو کے سینے میں پیوست ہو گئی۔اس کے ہاتھ سے کاغذات گر پڑے اوروہ ہوا میں اڑنے لگے مگرشیخووہیں ڈھیر ہو گیا۔بندوق کی آواز پر سارے پاگل بھاگ کر دور کھڑے ہو گئے ملازمین اور محافظین میں کھلبلی مچ گئی ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سناٹا چھا گیااور سکوت کا عالم طاری ہو گیا۔شیخو کی لاش پرکاش بابو کی لاش کے پاس پڑی ہوئی تھی جو شانتی شانتی کہتے ہوئے ہمیشہ کے لئے شانت ہو چکے تھے۔شیخو کا ہاتھ پرکاش بابو کے ہاتھ پر تھا اور گنگا جمنی تہذیب کا ثبوت پیش کر رہا تھا۔
عالمِ سکوت میں ہری اس خوں چکاں منظر کو دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔آج اس کے منہ سے جئے بجرنگ بلی کا نعرہ نہیں نکل رہا تھا۔اس کی زبان گنگ تھی لیکن آنکھیں نم تھیں اور بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ اس کے ذہن میں کئی عکس ابھر رہے تھے اسی طرح عکس در عکس وہ اپنے تخیلات میں گم تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ دیر تک دونوں لاشوں کو گھورے جا رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے صرف اور صرف آنسو رواں تھے۔۔۔۔مسکراہٹ ،ہنسی اور قہقہوں کے پیچھے بہت کچھ ہو سکتا ہے مگر آنسوؤں کے پیچھے آنسو اور صرف آنسوہی ہوتے ہیں۔ آج ہری کی آنکھوں سے مسلسل بہتے ہوئے آنسوؤں کے پیچھے چھپی حقیقت کو سمجھنا محال تھا۔