عجب نہیں کہ زمیں پاؤں سے سرک جائے (ردیف .. ن)
عجب نہیں کہ زمیں پاؤں سے سرک جائے
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں
شریف رہ کے گزاری گئی جوانی کا
اگرچہ فائدہ کم ہے مگر زیاں بھی نہیں
اسے قریب سے دیکھے ہوئے زمانہ ہوا
سنا ہے دیکھنے والوں سے اب جواں بھی نہیں
میں کوئی دیر کو آیا ہوں اس خرابے میں
مری نشست نہیں ہے مرا مکاں بھی نہیں
وقاصؔ لے کے کہاں جائے اپنی غربت کو
کہ اس لیے تو کوئی دوسرا جہاں بھی نہیں