عجب فسردہ دلی سے حیات کاٹی ہے

عجب فسردہ دلی سے حیات کاٹی ہے
قریب بیٹھ کے میت کے رات کاٹی ہے


کسی کی یاد کی زنجیر ٹوٹتی ہی نہ تھی
یہ قید عمر بصد مشکلات کاٹی ہے


حباب دار ہوا خود نما جہاں قطرہ
سزائے دعوائے عرفان ذات کاٹی ہے


عروج خاک نشینوں کا بھی ارے توبہ
طناب خیمۂ گردوں صفات کاٹی ہے


وہ خار زار حیات اور یہ آبلہ پائی
لہو جلا کے شب سانحات کاٹی ہے


ہوا ہے یوں بھی کہ جھک جھک کے جڑ محبت کی
رفیقوں نے ز رہ التفات کاٹی ہے


کہیں نہ برقؔ کی محرومیوں کا ذکر آئے
عدو نے عشق و محبت کی بات کاٹی ہے