ادنیٰ سا باسی

کل بھی میری پیاس پہ دریا ہنستے تھے
آج بھی میرے درد کا درماں کوئی نہیں
میں اس دھرتی کا ادنیٰ سا باسی ہوں
سچ پوچھو تو مجھ سا پریشاں کوئی نہیں
کیسے کیسے خواب بنے تھے آنکھوں نے
آج بھی ان خوابوں سا ارزاں کوئی نہیں
کل بھی میرے زخم بھنائے جاتے تھے
آج بھی میرے ہاتھ میں داماں کوئی نہیں
کل میرا نیلام کیا تھا غیروں نے
آج تو میرے اپنے بیچے دیتے ہیں
سچ پوچھو تو میری خطا بس اتنی ہے
میں اس دھرتی کا ادنیٰ سا باسی ہوں