ابھی تو زندہ ہیں کہتے ہو یارا کیا ہوگا
ابھی تو زندہ ہیں کہتے ہو یارا کیا ہوگا
ہمارے بعد نہ جانے تمہارا کیا ہوگا
ہمارا خود پہ گزارا نہیں ہے مدت سے
ہمارے ساتھ کسی کا گزارا کیا ہوگا
وہ میرے ساتھ غریبی میں بھی بہت خوش ہے
شب سیاہ جب آئی ستارہ کیا ہوگا
یہ دیکھنے کے لئے کیوں نہ ایک دن مر جائیں
ہمارے ساتھ اسی دن دوبارہ کیا ہوگا
وہ جس کے نصف نے پاگل کیا ہے دنیا کو
میں سوچتا ہوں حقیقت میں سارا کیا ہوگا
ہمارے نقش قدم سے قدم ملاؤ مگر
ہمارا کچھ نہ بنا تو تمہارا کیا ہوگا
زبان لپٹی ہوئی ہے گلے سے مردے کی
سوال یہ نہیں کیسے پکارا کیا ہوگا
وہ مل کے جائے تو لگتا نہیں ملا ہے کبھی
اگر کنارہ کرے تو کنارہ کیا ہوگا
جنہیں پتا تھا سبھی کچھ وہ لوگ بھی نہ رہے
ہمیں پتا ہی نہیں کچھ ہمارا کیا ہوگا
پہن لیا ہے اسے آنکھ موند کر میں نے
وگرنہ سوچتا رہتا اتارا کیا ہوگا