ابھی اس فکر سے نکلا نہیں ہوں

ابھی اس فکر سے نکلا نہیں ہوں
میں کیا ہوں اور آخر کیا نہیں ہوں


مجھے تم میرے موسم ہی میں پڑھنا
نصاب نسل آئندہ نہیں ہوں


وفاداری کناروں سے جو بدلے
میں دریاؤں کا وہ رستہ نہیں ہوں


جو دل کی دھڑکنوں کی ہم نوا ہے
اسی آواز پر پلٹا نہیں ہوں


بہت سے مسئلے ہیں زندگی میں
مگر تجھ کو تو میں بھولا نہیں ہوں


میں تیری دسترس میں تو نہیں تھا
ترے امکان میں بھی کیا نہیں ہوں


بہت سوچا ترے نزدیک آ کر
میں تیرے پاس ہوں بھی یا نہیں ہوں


جو دنیا تجھ سے واقف ہی نہیں ہے
میں اس دنیا کا باشندہ نہیں ہوں