اب تک اسی خیال میں الجھا ہوا ہوں میں

اب تک اسی خیال میں الجھا ہوا ہوں میں
اپنے بدل گئے ہیں کہ بدلا ہوا ہوں میں


دیوار و در کو دیکھ کے لگتا ہے دلبرا
تیری گلی سے پہلے بھی گزرا ہوا ہوں میں


بکھرے ہوئے سے بال ہیں دامن ہے تار تار
پوری طرح سے ہجر میں سنورا ہوا ہوں میں


شاید کہ ایک روز وہ آ کر سمیٹ لے
مدت سے کوئے یار میں بکھرا ہوا ہوں میں


بادہ کشی کے بعد تو آیا ہوں ہوش میں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ بہکا ہوا ہوں میں


یارب یہ زندگانی میں کیسا جمود ہے
ٹھہرا ہوا ہے وقت یا ٹھہرا ہوا ہوں میں


آیا ہوں اپنے شہر تو لگتا ہے یوں ذکیؔ
جیسے کہ ایک دشت میں بھٹکا ہوا ہوں میں