آوارہ بوئے گل کی طرح ہیں چمن سے دور
آوارہ بوئے گل کی طرح ہیں چمن سے دور
لغزیدہ پا نہیں ہیں مگر ہم وطن سے دور
تاریک راستوں میں بچھاتے ہیں روشنی
ایسے بھی کچھ چراغ جلے انجمن سے دور
جس نے نسیم صبح کو بخشی ہے تازگی
خوشبو وہ کس قدر ہے پریشاں چمن سے دور
وہ لوگ جن کا خون ہے رنگ بہار میں
رکھا گیا ہے ان کو ہی صحن چمن سے دور
سنگ اساس ہونے کے احساس نے ہمیں
اب تک رکھا ہے لذت تشہیر فن سے دور
اب اس کو کیا کہیں وہی فن کار وقت ہے
جو شخص عصر نو میں ہے معیار فن سے دور