آشیاں تھا ہم سے ہم تھے آشیانے کے لئے

آشیاں تھا ہم سے ہم تھے آشیانے کے لئے
روئیے کیا اب قفس میں اس زمانے کے لئے


کار فرما ہیں نیاز عشق کی مجبوریاں
سجدے لے کر میں چلا تھا آستانہ کے لئے


کشمکش میں ہے حیات و موت کی جان حزیں
آپ آ جائیں ذرا قصہ چکانے کے لئے


کوئی ہوتا ہے خریدار متاع اہل دل
دولت دارین لاتے ہیں لٹانے کے لئے


ہو قفس کی تیلیوں پر بھی نگاہ لطف برق
کیا نشیمن ہی کے تنکے تھے جلانے کے لئے