آؤ چلیں ماں

آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں
شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں
مانا یہ چاندی کی دنیا حسین ہے
دھرتی کی حوروں کا جلوہ حسین ہے
اونچے اونچے محلوں کا نغمہ حسین ہے
کیسے یہاں گھوموں کہ زور نہیں پاؤں میں
آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں
شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں
چار طرف اپنی ترقی کا زور ہے
ناچ رہا جیسے کہ جنگل میں مور ہے
بڑی بڑی زندہ مشینوں کا شور ہے
سانس گھٹی جائے یہاں کی ہواؤں میں
آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں
شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں
سڑکوں پہ گلیوں میں فلمی ترانہ
یاد نہیں لیکن خوشی کا فسانہ
ان کو مبارک مہذب زمانہ
کون رہے سندر منوہر بلاؤں میں
آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں
شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں
انسان جیسے ہوں باسی مزار کے
پھر بھی ہنسیں ہم کو دیہاتی پکار کے
ٹوٹ گئے تار یہاں من کے ستار کے
جنت ہماری وہیں پیپل کی چھاؤں میں
آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں
شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں
ابا جی آئے ہیں روٹی کمانے
بیت رہی کیا ان پہ اللہ جانے
اپنے ملیں اس طرح جیسے بیگانے
جان نہیں کوئی بھی نقلی اداؤں میں
آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں
شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں