عامر لیاقت : مرنے والے کو کیسے یاد کیا جائے؟

عامر لیاقت حسین راہی اجل ہوئے۔ اللّٰہ ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ان کی وفات نے جہاں بہت اچانک سب کو چونکا دیا وہاں ایک بار ہم سب کو جھنجھوڑ بھی دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی مجازی دنیا اب ہماری حقیقی دنیا پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔۔۔جو لوگ سوشل میڈیا پر نہیں ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے سوشل میڈیا کی سرگرمیوں سے واقف ضرور ہوجاتے ہیں۔عامر لیاقت مرحوم کی موت کا موضوع بھی تین  چار دن سے ٹرینڈنگ پر ہے۔ اور کسی نہ کسی طرح سے اس پر گفتگو ہورہی ہے۔ہم اس تحریر میں  سماجی اخلاقیات کے ایک پہلو پر توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ڈیجیٹل دور میں بھی اپنی اقدار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

عجب زیاں کار لوگ ہیں ہم بھی۔۔۔ زندہ ، ہنستے کھیلتے ،ہم سے باتیں کرتے تمام انسان ہمیں خامیوں سے بھرے ، گناہوں اٹے اور گمراہیوں میں لتھڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔ اور جیسے ہی یہ خام، گنہگار اور گمراہ سمجھے جانے والے لوگ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔۔۔ راہ عدم کے عازم ہو جاتے ہیں تو یکا یک ہمیں ان جانے والوں کی باتوں میں دانائی ، اچھائی اور سچائی دکھنے لگتی ہے ۔ ان کی ہلکی پھلکی ، میٹھی تیکھی سب یادیں ہمیں اثاثہ لگنے لگتی ہیں ۔ چار دن خوب ان کا چرچا بھی کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ۔۔۔سب فراموش!

آخر کیوں ہم آج تک کسی بھی انسان کی اس کی زندگی میں قدر نہیں کر پائے؟

آخر کیوں انسان کی خوبیاں اس کے جانے کے بعد ہی ہم پر آشکار ہوتی ہیں ؟ بقول شاعر

اس سے نفرت تھی، محبت تھی کہ بے زاری تھی

کوئی   مر  جائے    اچانک    تو   پتا   لگتا   ہے

(جاوید صبا)

ہم نَوا  میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں

بدھ 9 جون 2022ء کوجس وقت سے عامر لیاقت حسین مرحوم کے انتقال کی خبر میڈیا پر گردش کر رہی تھی ۔۔۔ اسی قسم کے ڈھیروں سوالات ذہن میں باہم دست و گریباں تھے ۔ عامر لیاقت حسین مرحوم سے اکثر نالاں اور شدید فکری ، نظریاتی اور سیاسی اختلافات رکھنے والے افراد کو بھی آج ان کے لیے "کلمات جمیلہ" ادا کرتے ہوئے سن کر بہت سکون بھی ملا کہ ہمارے ہاں ابھی اس  قدر اخلاقی اقدار کی پاسداری ضرور موجود ہے کہ جانے والے کو برا نہ کہا جائے ۔۔۔ لیکن یہ کسک بھی ضرور پیدا ہوئی یہ سب دیکھ کر کہ کاش! جیسے یہ روایت ہمارے ہاں ابھی زندہ ہے کہ جانے والے کو کبھی برا نہ کہا جائے ۔۔۔ ایک روایت ایسی بھی کہیں ہمارے معاشرے میں جگہ پا لے کہ آنے والے کو بھی برا نہ کہا جائے ۔۔۔ ساتھ رہنے والوں کو برا بھلا نہ کہا جائے ۔

کیا ہم ماضی پرست لوگ ہیں؟

دراصل ہم بنیادی طور پر ماضی پرست واقع ہوئے ہیں۔ کوئی لمحہ ہو یا کوئی انسان۔۔۔ جب تک وہ ماضی کا حصہ نہ بن جائے ہم اس کی قدر و قیمت سے ہی آگاہ نہیں ہوتے۔ہم ساری عمر پچپن کے سحر میں اس لیے مبتلا رہتے ہیں کہ جب ہم ہوش سنبھالتے ہیں تب تک وہ ہمارے ماضی کا حصہ بن چکا ہوتا ہے اور ساری عمر ہمارے ماضی ہی کا حصہ رہتا ہے۔

اور ہماری عمر بھر یہی خواہش رہتی ہے کہ:

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی

وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی

وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈیرا

وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا

بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی

وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

(سدرشن فاکر)

انسان اسی بچپن کو یاد کرتے کرتے جوان ہوتا ہے۔ پھر جوانی کی یادیں پچپن کی یادوں سے مل کر دو آتشہ شراب کا سا کام کرتی ہیں اور پچھلی عمر کا سارا حال ماضی کی نذر کر کے بالآخر خود ہی ماضی کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم دوسروں کے لیے اہم ہونا شروع ہوتے ہیں جب ہم جن کے ماضی کا حصہ تھے۔

سوشل میڈیا   پر رہیے لیکن  ذمہ داری کے ساتھ

سوشل میڈیا کی گرد اور دھول میں اٹی ہوئی فضاء میں ہر وقت معلومات کا ایک طوفان برپا ہوتا ہے۔ چٹخارے اور سنسنی خیزی کی تلاش میں سرگرداں سوشل میڈیا صارفین جو آج کسی کی رسوائی کے تماشائی ہوتے ہیں نجانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کسی کمزور لمحے کی پکڑ میں آ جانے سے وہ بھی تماشا بن سکتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے ہاتھ میں رسوائی کا سامان لیے گھوم رہا ہے۔ کب یہی سامان آپ کے اپنے خلاف استعمال ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔ ایک "شئیر" کا کا بٹن دبائیں اور پوری دنیا آپ کی خلوت میں آن گھسے گی۔ اس کے بعد آپ لاکھ روئیں چیخیں چلائیں۔۔۔یہ چٹخارے اور سنسنی کے بھوکے لوگ آپ کی شہرت، نیک نامی اور خلوت سب چٹ کر جائیں گے۔ آپ جس قدر زور سے اپنی صفائی دینے کے لیے چلائیں گے یہ اتنا ہی محظوظ ہوں گے۔۔۔ حتیٰ کہ آپ تنگ آ کر کسی اور جہاں کا سفر اختیار کر لیں گے۔ جیسا کہ عامر لیاقت حسین نے کیا۔۔۔

لیکن۔۔۔

اب اس پاگل پن کو روکنا ہو گا۔۔ اظہار کی آزادی سر آنکھوں پر۔۔۔ لیکن بدگمانیوں کی تجارت اب روکنا ہو گی۔۔ سنسنی کا بازار بند کرنا ہو گا۔۔۔ تاکہ کوئی اور ہنستا ہنساتا عامر لیاقت حسین اس چٹخارہ زدہ مخلوق کی بھینٹ نہ چڑھ سکے۔

متعلقہ عنوانات