آگہی

زندگی کیا ہے روشنی کے سوا
روشنی کیا ہے اک خوشی کے سوا


یہ خوشی وادیوں کی چھاؤں میں
ناچتی ہے ہر ایک پتی پر
چوم لیتی ہے بادلوں کے حصار
اڑتی پھرتی ہے سکھ کی بستی پر


میرے دل میں ہمک رہی ہے ابھی
آتشیں رنگ یہ کرن ہی تو ہے
آنکھ میں دیپ جل اٹھے ہوں جہاں
یہ خوشی اک حسیں ملن ہی تو ہے


اپنے ہونے پہ شرمسار نہ ہو
یہ خوشی تجھ کو بھی بلائے گی
رات کتنی ہی گھپ اندھیری ہو
رات آخر گزر ہی جائے گی


زندگی روشنی کی چاہت میں
اک نیا عزم لے کر اٹھے گی
توڑ ڈالے گی ظلمتوں کی فصیل
اک نئی صبح لے کے اترے گی


زندگی روشنی کے رستے میں
اپنا سب کچھ لٹانے آئی ہے
اپنے سورج کی آرزو لے کر
ان اندھیروں کو ڈھانے آئی ہے


کیا ہوا گر ہمیں سحر نہ ملی
ایک خواہش تو چھوڑ جائیں گے
آنے والی ہواؤں کے رخ پر
آگہی کا دیا جلائیں گے