عادت مری دنیا سے چھپانے کی نہیں تھی

عادت مری دنیا سے چھپانے کی نہیں تھی
وہ بات بھی کہہ دی جو بتانے کی نہیں تھی


میں خوش ہوں بہت گرد کو آئینے پہ رکھ کر
دی وہ مجھے صورت جو دکھانے کی نہیں تھی


ہم کھا گئے دھوکا تری آنکھوں کی نمی سے
وہ چوٹ دکھا دی جو دکھانے کی نہیں تھی


اچھا ہوا نیند آ گئی ارباب وفا کو
آگے یہ کہانی بھی سنانے کی نہیں تھی


یوں دل کو کیا شعلۂ غم تیرے حوالے
اس گھر میں کوئی چیز بچانے کی نہیں تھی


کچھ اس لئے اپنا نہ سکا اس کو زمانہ
صولتؔ کی جو عادت تھی زمانے کی نہیں تھی