پاکستان سپر لیگ کے بقیہ مقابلے اب کراچی میں جون میں منعقد ہوں گے: پاکستان کرکٹ بورڈ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کے ملتوی شدہ میچ اس سال جون میں کراچی میں کرانے کا اعلان کیا ہے۔اس بات کا فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین احسان مانی کے پی ایس ایل کے چھ فرنچائز مالکان کے ساتھ ہونے والے ورچوئل اجلاس میں کیا گیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور کرنے کے بعد جون کے مہینے کو اس ایونٹ کے لیے موزوں سمجھا گیا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے ملتوی شدہ 20 میچ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی دورہ زمبابوے سے 13 مئی کو واپسی اور 26 جون کو دورہ انگلینڈ روانگی کے درمیانی وقت میں شیڈول کیے جائیں گے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

پی ایس ایل 6 ملتوی: بائیو سکیور ببل کی مبینہ خلاف ورزیوں پر الزامات اور سوالات

پی سی بی ’مہربانی‘ میں مارا گیا

کھلاڑی میں کورونا کا خدشہ، پی ایس ایل کے بقیہ میچ ملتوی

کیا آپشن دستیاب تھے؟

پاکستان سپر لیگ کے ملتوی ہونے کے بعد سے پاکستان کرکٹ بورڈ اور فرنچائز مالکان مختلف آپشن پر غور کررہے تھے۔

ابتدائی مشاورت کے دوران فرنچائز مالکان کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آئی تھی کہ لیگ کے ملتوی شدہ میچوں کو جتنا جلد ہوسکے ممکن بنایا جائے اور یہ آئی پی ایل سے پہلے ممکن ہے۔

فرنچائز مالکان اس بات پر بھی مصر تھے کہ اگر پاکستانی ٹیم کا جنوبی افریقہ کا دورہ بھی ملتوی کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کا یہ موقف تھا کہ انٹرنیشنل سیریز کو اس طرح ختم کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس سے کرکٹ بورڈز کے تعلقات پر منفی اثر پڑسکتا ہے اوراس کے علاوہ براڈکاسٹروں کے معاملات بھی ذہن میں رکھنے ہوتے ہیں۔

دوسرا آپشن پی ایس ایل کو جون میں کرانے کا تھا جبکہ تیسرا آپشن لیگ کو ستمبر میں کرانے کا زیرغور آیا تھا۔

پی ایس ایل کیوں ملتوی ہوئی تھی؟

پاکستان سپر لیگ متعدد کھلاڑیوں کے کووڈ ٹیسٹ مثبت آنے کے نتیجے میں چار مارچ کو ملتوی کردی گئی تھی اس وقت تک لیگ کے 14 میچ کھیلے جا چکے تھے اور 20 میچ باقی رہتے تھے۔

ان میں سے کراچی کے چھ میچ اور لاہور مرحلے کے 14 میچ شامل تھے۔

لیگ ملتوی کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ شریک ٹیموں کے متعدد کھلاڑیوں کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آنا تھا۔ اس کے علاوہ لیگ کے دوران ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی سنگین بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی تھیں۔

پاکستان سپر لیگ میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کا پہلا واقعہ مقابلے شروع ہونے سے قبل ہی اسوقت سامنے آیا جب پی سی بی نے 20 فروری کو یہ بتایا کہ ایک ٹیم کے ایک کھلاڑی اور ایک آفیشل نے جمعہ کے روز یعنی 19فروری کو بائیو سکیور ببل کے باہر ایک شخص سے ملاقات کرکے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

قوانین کے مطابق کھلاڑی اور آفیشل کو تین دن قرنطینہ میں رہنا تھا اورانھیں دوبارہ بائیو سکیور ببل میں داخل ہونے کے لیے دو منفی کووڈ ٹیسٹ درکار تھے۔

اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بائیو سکیور ببل کی خلاف ورزی کرنے والے کھلاڑی اور آفیشل کا نام نہیں بتایا تھا لیکن بعد میں اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ وہ کھلاڑی ایک ٹیم کے کپتان وہاب ریاض اور آفیشل ہیڈ کوچ ڈیرن سیمی تھے جنہوں نے ٹیم کی پریکٹس کے دوران اپنے فرنچائز مالک سے ملاقات کی تھی جو بائیو سکیور ببل میں نہیں تھے۔

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اس معاملہ نے تنازعہ کی شکل اختیار کرلیا جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی کی اپیلیں منظور کر کے انھیں کھیلنے کی اجازت دے دی حالانکہ ان دونوں کے قرنطینہ میں تین دن بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔

اسی روز پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ بھی بتایا کہ ایک اور ٹیم کے ایک کھلاڑی جو پہلے سے آئسولیشن میں تھے، ان کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور انھیں دس روز قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔

پاکستان سپر لیگ کو پھر ایک اور دھچکہ لگا جب یکم مارچ کو اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان میچ ملتوی کردیا گیا کیونکہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیگ اسپنر فواد احمد کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

دو مارچ کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ٹام بینٹن اور ایک دوسری ٹیم کے کھلاڑی کا کووڈ ٹیسٹ بھی مثبت آیا۔

اس کے علاوہ ایک اور ٹیم کے کوچنگ اسٹاف ممبر کے کووڈ ٹیسٹ مثبت ہونے کی بھی تصدیق ہوئی۔

چار مارچ کو تین مزید کھلاڑیوں کے کووڈ ٹیسٹ مثبت آنے کی اطلاع آئی جس کے بعد آسٹریلوی کرکٹر ڈین کرسٹین نے لیگ چھوڑ کر وطن واپس جانے کا فیصلہ کرلیا۔

اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس پاکستان سپر لیگ کو ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔

وسیم خان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سی ای او وسیم خان پاکستان سپر لیگ کے ملتوی کیے جانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے

'مثبت ٹیسٹ کے باوجود ہوٹل سے چلے جانا'

پاکستان سپر لیگ کے دوران اگرچہ کھلاڑیوں کے کووڈ ٹیسٹ مثبت آنے کا سلسلہ جاری تھا لیکن سب سے چونکادینے والا واقعہ ایک ٹیم کے ساتھ منسلک سکیورٹی افسر کا مثبت کووڈ ٹیسٹ کے باوجود بائیو سکیور ببل چھوڑ کر کراچی سے لاہور چلے جانا تھا۔

ان افسر کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ دو منفی ٹیسٹ نتائج کے بعد وہ بائیو سکیور ببل میں داخل ہوئے تھے لیکن 20 فروری کو ان کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آگیا تاہم صرف ایک دن آئسولیشن میں رہنے کے بعد وہ ہوٹل چھوڑ گئے۔

ڈاکٹر سہیل سلیم کا استعفی؟

پاکستان سپر لیگ کے لیے بائیو سکیور ببل پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیکل ڈاکٹر سہیل سلیم نے ڈیزائن کیا تھا تاہم لیگ کے دوران پیش آنے والے واقعات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے بتایا کہ ڈاکٹر سہیل سلیم نے استعفی دے دیا ہے اور اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات سے وہ مکمل تعاون کریں گے۔

ڈاکٹر سہیل سلیم کا استعفی دینا یا لیا جانا اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انھوں نے اس سے قبل بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بائیو سکیور ببل ڈیزائن کیے تھے جن میں پورا ڈومیسٹک سیزن اور جنوبی افریقہ کے خلاف ہونے والی سیریز شامل ہیں اور اس دوران بد انتظامی یا خلاف ورزی کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔

ڈاکٹر سہیل سلیم نے پی ایس ایل کے لیے جو بائیو سکیور ببل ڈیزائن کیا تھا اس سلسلے میں انھیں کووڈ ایڈوائزری کمیٹی کی معاونت اور مشاورت بھی حاصل تھی جن میں تین ماہر ڈاکٹرز شامل تھے۔

یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ایس ایل کے دوران جو واقعات پیش آئے کیا ایک ڈاکٹر کے استعفے سے معاملے کو داخل دفتر کیا جاسکتا ہے؟

کیا یہ خلاف ورزی محض طبی نوعیت کی تھی یا اس میں انتظامی عوامل بھی شامل تھے کیونکہ بائیو سکیور ببل پر عملدرآمد ان افسران اور اہلکاروں کی بھی ذمہ داری تھی جو ٹیم ہوٹل میں تعینات تھے۔

پی ایس ایل

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

کیا وہ سکیورٹی اہلکار اور افسران جواب دہ نہیں جن کے ہوتے ہوئے مہمانوں اور فیملیز کی اپنے کھلاڑیوں تک رسائی آسان تھی یا باہر سے کھانے لانے پر پابندی ہونے کے باوجود کھانے باہر سے آتے رہے؟

کیا بورڈ ان کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں کرسکتا جن کے بارے میں خود بورڈ کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ یہ کھلاڑی اپنے بڑے ناموں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکیورٹی اور ہوٹل اسٹاف کو آنکھیں دکھاتے رہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے دوران پروٹوکول کی خلاف ورزی کاجائزہ لینے کےلیے دو رکنی پینل تشکیل دے رکھا ہے جس میں ڈاکٹرفیصل محمود اور ڈاکٹر سلمی عباس شامل ہیں ۔

یہ پینل 31 مارچ تک اپنی سفارشات اور تجاویز پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو پیش کرے گا۔

متعلقہ عنوانات