مشقِ ویکسینی و صد مشکلہا

پاکستان ، بلکہ ساری دنیا کورونا کی لپیٹ میں ہے، جس نے دنیا کو دو طبقوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک وہ گروہ جس کے بقول کورونا اول تو ہے ہی نہیں، اور اگر ہو بھی تو یہودی سازش کے سوا کچھ نہیں۔  یہ وہی طبقہ ہے جس کا ایمان یہ ہے کہ ڈاکٹر ٹیکے لگا کر لوگوں کو مارتے ہیں اور پھر ان اموات کو کورونا کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، جن کے نزدیک "جیہڑی رات قبر وچ اے او باہر نئیں" سب سے مؤثر دلیل ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے ،  جو واقعتاً تشویش میں مبتلا ہے۔ اب آج کل کورونا کی ویکسینیشنز کروائی  جا رہی ہیں ،  جس حوالے سے معاشرہ ایک با رپھر مختلف آراء کے باعث دو گروہوں میں بٹ گیا ہے، یعنی ایک گروہ وہ  جو طوعاً  یا کرہاً  ویکسین لگوا رہا ہے اور دوسری قوم وہ جو ویکسینیشن کی مد میں جعلی اور مصنوعی اسناد کی مدد  لے رہا ہے۔

اسی سلسلے میں، ماضی بہت ہی قریب کی بات ہے، ہم نے لاہور کے ایک اسپتال سے رجوع کیا اور وہاں سے ویکسین کی پہلی ڈوز لگوا لی۔   اگلے ہی روز ایک بظاہر معقول دکھائی دینے والے صاحب سے ملاقات ہوئی اور  انہی کے استفسار پرہم نے گزارش کی کہ واقعی  ہم  ویکسینیشن کروا ئے  بیٹھے ہیں، جس پر حضرت خاصے مایوس نظر آئے اور فرمانے لگے۔
"آج کل کی نسل کسی سےمشورے کا تردد کرتی تو نہیں ، لیکن صاحبزادے اگر آپ کسی سے پوچھ لیتے تو ایسی غلطی ہرگز نہ کرتے۔

خیر، اب آپ نے یہ غلطی کر ہی لی تو اب قوم پر احسان کیجیے اور دو برس تک شادی سے گریز فرمائیے(یعنی یونہی کسی کی بیٹی کوبیوہ نہ کیجیے)۔"

ہمیں بھی فوراً اپنی خطا کے سنگین تر ہونے کا احساس ہوا ، ہم نے اپنا سر جھکایا  مگر  تڑ سے یہ جواب بہرحال ہم نے ضرور دیا،
"جناب دو برس تک یوں بھی ہمیں اپنی شادی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔۔۔"