محمد رفیع کے نام

عظیم  نقاد ، لان جائنس نے کسی بھی فن کار یا فن پارے کو پرکھنے کے سلسلے میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ جو  تخلیق اپنے تخلیق کار کی موت کے بعد بھی دیر تک زندہ رہے ، وہی عظیم فن کار اور عظیم فن پارہ کہلوانے کے لائق سمجھے جا سکتے ہیں۔

 محمد رفیع کو بر صغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا اور ورسٹائل گلو کار ، جب کہ ان کی آواز کو برصغیر کی خوب صورت ترین آواز تسلیم کیا گیا ہے ۔

چوبیس دسمبر انیس سو چوبیس کو امرتسر کے گاؤں ، کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہونے والے محمد رفیع نے اپنے بچپن کا بیش تر حصہ تو لاہور میں گزارا ،  جہاں ان کو مختلف پنجابی فلموں کے لیے گیت گانے کا موقع ملا ، مگر ان کو اپنی خوب صورت آواز کے جوہر دکھانے کا اصل موقع بمبئی میں ہی ملا ۔

انہوں نے انیس سو چوالیس سے اپنی وفات ، یعنی انیس سو اسی تک بلا مبالغہ ہزاروں گیت گائے ، اور ان کے بے شمار گیت آج بھی ان کے مداحوں اور پرستاروں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپنے وقت کے سبھی نمایاں اداکاروں ، گلو کاروں اور موسیقاروں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور وہ ہر بار ہی سامعین و ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔

بحیثیت ایک نمایاں پلے بیک سنگر ، یعنی پسِ پردہ گلو کار ، ان کی آواز کی غیر معمولی لے اور ان کا نا قابلِ تقابل حد تک اونچے اور دھیمے سروں پر بھی اپنی لے کو برقرار رکھنا تمام معاصرین و متاخرین کے لیے ایک نا قابلِ عبور امتحان رہا ۔   لہٰذا کئی بار ایسا ہوا کہ ان کے ساتھی گلو کاروں (کشور کمار ، مکیش ، منا ڈے وغیرہ ) نے   بہت سے گیتوں کو ان کے غیر معمولی حد تک اونچے سروں کی باعث گانے سے معذرت کر لی،  اور ایسے میں فلم ڈائریکٹرز اور موسیقاروں کو معلوم تھا کہ کس کی جانب رجوع کرنے کا مرحلہ درپیش ہے۔ مئی انیس سو اکہتر کی فلم   "ہاتھی میرے ساتھی" کا گیت ، "نفرت کی دنیا کو چھوڑ کے" ،  اسی معاملے کی ایک مثال ہے ۔ ان کو ہر طرز اور طور کا گیت  انتہائی خوب صورت اور نا قابلِ فراموش حد تک مدھر انداز میں گانے کا ملکہ بخوبی حاصل تھا۔

لیکن ان کے فن کی انفرادیت یہیں پر تمام نہیں ہوتی  ،  ان کا باقی گلو کاروں پر امتیاز ایک اور معاملے میں بھی تھا ، اور وہ یہ کہ وہ جس گلو کار کے لیے پس پردہ گلو کاری کرتے ، اس کا انداز اور آواز بھی اپنا لیتے ۔ چنانچہ ، بیش تر گانوں میں ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے  خود ادا کار ہی گا  بھی رہے ہوں۔ اسی سبب ، بہت سے ادا کاروں کا   محمد رفیع کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ اپنی  پلے بیک سنگنگ سے وہ ہمارا آدھا کام بھی کر جاتے تھے  ، جس سے ہمیں بہت آسانی ہوا کرتی تھی۔  یعنی  گیت میں آواز اور انداز جب  اداکار کا اپنا لیا گیا تو اداکار کو سوائے ہونٹ ہلانے کے اور کیا  کرنا ہے؟؟؟   اس عرصے میں انہوں نے اپنے ساتھی گلو کاروں کی ادا کاری کے لیے بھی گیت گائے ۔ مثلاً ، کشور کمار کی انیس  سو انسٹھ کی فلم "شرارت" کا گیت ، "عجب ہے داستاں تری اے زندگی"  میں آواز محمد رفیع کی ، جب کہ چہرہ کشور کمار کا ہے۔

 

محمد رفیع نے نعتیہ کلام  بہت خوب  پڑھا ۔ اس  کے علاوہ  غزلیں ، قوالیاں ، گیت ، بھجن ، کلاسیکل راگ  اور مروجہ موسیقی کی دیگر تمام اقسام  میں   بھی اپنے بے مثال اور لا زوال فن کے خوب جوہر دکھائے ۔
اپنے چھتیس سالہ گلوکاری کے کرئیر میں انہوں نے بے شمار گیت گائے ، جن میں سے چند نمایاں اور مقبول ترین گیت یہ ہیں ۔
بہارو پھول برساؤ، دیوانہ ہوا بادل، یہ دنیا یہ محفل،  گزرے ہیں آج عشق میں ،یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا،مجھے لے چلو آج پھر اس گلی میں،تم مجھے یوں بُھلا نہ پاؤ گے، کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے،آج پرانی راہوں سے،تُو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے، میری آواز سنو،رنگ اور نور کی بارات،دن ہیں یہ بہار کے، پتھر کے صنم ،دن ڈھل جائے،کیا ہوا تیرا وعدہ،تیری آنکھوں کے سوا،پکارتا چلا  ہوں مَیں،چودھویں کا چاند ہو،کل تری بزم سے پروانہ،  دل جو نہ کہہ سکا،جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا، ساون کے مہینے میں،آواز مَیں نہ دوں گا، بھری دنیا میں آخر دل  کو سمجھانے، سہانی رات ڈھل چکی،   کھویا کھویا چاند وغیرہ وغیرہ۔

ان کی خوبصورت گائیکی ، سامعین میں  ان کی مقبولیت،  ہم عصروں اور  اپنے بعد میں آنے والے گلو کاروں پر ان کی فوقیت کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ 2013   میں انڈیا کی تاریخ کے سو بہترین گانوں کی فہرست مرتب کرنے کے لیے بی بی سی ایشین نیٹ ورک  نے جب ووٹنگ کروائی تو 100 میں سے چودہ محمد رفیع کے تھے ، جبکہ وہ 33 برس پہلے  ہی یہ میدان  نئے کھلاڑیوں کے  لیے چھوڑ کر جا  چکے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ اس فہرست میں جس گیت کو سب سے اوپر جگہ ملی ، یعنی بالی ووڈ کی تاریخ کا سب سے خوب صورت گیت ،   وہ محمدرفیع کا "بہارو پھول برساؤ " تھا۔ جب آؤٹ لُک میگزین کی جانب سے  دو ہزار دس میں برصغیر کی تاریخ کے تین خوب صورت ترین گیتوں  کی فہرست  کے لیے  پول کروایا گیا  تو وہاں بھی محمد رفیع کا ہی گیت سب سے اوپر تھا ،  جب کہ دوسرے نمبر پر ان ہی کے دو گیت تھے۔ اس پول کے لیے مقرر کردہ جیوری میں بھارت کی تاریخ کے نمایاں گلوکار اور موسیقار تھے۔

دو ہزار ایک میں سٹار ڈسٹ میگزین اور ہیرو ہونڈا نے انہیں

  “Best Voice of the Millennium”

یعنی پچھلے ایک ہزار برس کی سب سے خوبصورت آواز قرار دیا۔

اسی طرح دو ہزار تیرہ میں ان کو  CNN   نے “Golden Voice of Hindi Cinema”  قرار دیا۔

بھارتی سنیما  کی تاریخ کے بہت سے نمایاں گلو کاروں  ، مثلاً مہندرا کپور ،  محمد عزیز ، سونو نگم ، ادت نرائن وغیرہ نے رفیع کی گائیکی کا انداز اپنانے اور ان کی پیروی کرنے کی کوشش کی ، اور اس پر فخر کا اظہار بھی کیا۔

محمد رفیع  اکتیس جولائی ، انیس سو اسی کو اپنے خالقِ حقیقی  کے حضور حاضر ہو گئے ۔ بھارتی حکومت  نے ان کی وفات پر دو روزہ سوگ کا اعلان کیا  ۔  ان کا  آخری گیت ،"  شام پھر کیوں اداس ہے اے دوست ، تُو کہیں آس پاس ہے اے دوست" تھا ، جو انہوں نے فلم "آس پاس" کے لیے گایا۔

محمد رفیع کو بھارتی حکومت نے 1967 میں  پدما شری ایوارڈ دیا۔ جبکہ ان کو مختلف گیتوں کی بنیاد پر چھ فلم فیئر ایوارڈز  اور ایک نیشنل  فلم سمیت کل پندرہ بڑے ایوارڈز ملے۔ انیس سو اڑتالیس میں اس  وقت کے وزیر اعظم، جواہر لال نہرو کی جانب سے انہیں سلور میڈل ملا ۔

محمد رفیع کو اپنے پرستاروں سے بچھڑے اکتالیس برس  سے زیادہ عرصہ بیت چکا ، مگر ان کی منفرد اور نا قابل تقابل  آواز ، اور روح کے تار چھیڑتی مدُھرتا  آج بھی انہیں  اپنے چاہنے والوں کے دِلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ آج سے پچھتر برس پہلے گائے گئے ان کے گیت  بھی آج  سنے جائیں تو آج کے ہزار ہا گیتوں پر حاوی معلوم ہوتے ہیں ۔ بے شک وہ 1949 کی فلم "دلاری" کا گیت ، "سہانی رات ڈھل چکی " ہو یا  1952 کی فلم "بیجو باورا" کا گیت "او دنیا کے رکھوالے" ، آج تک یہ گیت آنے والے سبھی گلو کاروں کے لیے ایک  بے حد کڑے امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں۔

شاید اسی حوالے سے تیسری صدی عیسوی کے عظیم نقاد اور فلسفی  ، لان جائنس نے کہا تھا کہ کسی زندہ انسان، بالخصوص  فن کار یا  شاعر  کی پزیرائی یا تسلیمِ  عظمت کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں ، اصل عظیم فن کار ، تخلیق کاراور در حقیقت لائقِ تحسین وہ ہے کہ  جس کی موت کے بعد بھی اس کی عظمت کو تسلیم کیا جائے۔