نوبل انعامات 2022: نوبل انعام برائے طب، انسان نما "نیندر تھل " کے جینوم کی نقشہ کشی کے نام

            اس سال فزیالوجی یا میڈیسن  کا نوبل انعام سوانتے پابو کو دیا گیا ہے۔انھیں یہ انعام"   نیندرتھل کے جینوم کی نقشہ کشی پر دیا گیا ہے ۔ "ان کی اس تحقیق کی بدولت  جدید انسانوں کی ارتقائی تاریخ کے بارے میں نئے پہلو آشکار ہوئے ہیں۔  اس تحقیق کی اہمیت کیا ہے؟ اس نوبل انعام کی منفرد بات کیا ہے؟ کیا اس تحقیق سے انسان کی ابتدا کے بارے میں سوال حل کرلیا گیا ہے؟ آئیے اس کو سمجھتے ہیں۔

            اس سال فزیالوجی یا میڈیسن  کا نوبل انعام (Nobel Prize for Physiology or Medicine) سوانتے پابو  (Svante Pääbo)کو دیا گیا ہے۔انھیں یہ انعام"   نیندرتھل کے جینوم کی نقشہ کشی (decoding of the Neanderthal genome) پر دیا گیا ہے ۔ "ان کی اس تحقیق کی بدولت  جدید انسانوں کی ارتقائی تاریخ کے بارے میں نئے پہلو آشکار ہوئے ہیں۔  نوبل کمیٹی کے لیے کسی اکیلے فرد کو انعام دینا ایک غیر معمولی بات ہے، لیکن 2022 کا فزیالوجی یا طب کا انعام واقعی صرف ایک ہی شخص کو دیا گیا ہے۔

            چونکہ ہمارے یہاں نظریہ ارتقا کے بارے میں خاصے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، اس لیے پہلے ہم آپ کے سامنے اس تحقیق کے بارے میں چند بنیادی باتیں بیان کرتے ہیں تاکہ اس دریافت  کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔

نوبل انعامات 2022: ادب کے میدان میں نوبل انعام کس کو دیا گیا ہے؟ جاننے کے لیے پڑھیے یہاں کلک کیجیے

نوٹ: یہ محض ایک علمی کاوش کا احوال ہے۔ اسے کسی مذہبی تناظر میں نہ دیکھا جائے

          انسانی تخلیق کے دو نظریات  

            انسان کی پیدا ئش کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ان میں مخصوص تخلیق کا نظریہ اور نظریہ ارتقا ء سب سے زیادہ مقبول نظریات ہیں۔

          نظریہ تخلیق (Theory of Special Creation)

            مخصوص تخلیق کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اور ہر نوع (بشمول انسان)، آج جس حالت میں موجود ہے، اسے اسی حالت میں ہی تخلیق کیا گیا تھا۔ گزشتہ صدی تک، سائنسدانوں اور مذہبی علماء سمیت دنیا کی اکثریت اسی نظرئیے کی قائل تھی۔  

          نظریہ ارتقاء  (Theory of Evolution)

            اس کے مقابلے میں نظریہ ارتقا بتاتا ہے کہ زندگی کی ابتدا ایک سادہ جرثومے سے ہوئی اور لاکھوں کروڑوں سال کے عرصے میں یہ بتدریج کئی منازل طے کرتی ہوئی شرف انسانیت تک پہنچی ہے۔بعض یونانی فلاسفر مثلاََ انیکسی مینڈر، ایم پی ڈوسل اور ارسطو بھی کسی حد تک یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ جبکہ مسلمان مفکرین میں ابن باجہ، ابو نصر الفارابی اور ابن مسکویہ  نے  نظریہ ارتقاء کو ایک باقاعدہ نظرئیے کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ نباتات، حیوانات اور انسانوں میں زندگی کے بنیادی عناصر ایک جیسے ہیں تو انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یقیناََ زندگی ایک ہی سلسلے کا نام ہے جو مختلف منازل طے کرتی ہوئی بتدریج انسان تک پہنچی ہے۔  

نوبل انعامات 2022: نوبل انعام برائے فزکس کس بنیاد پر دیا گیا ہے؟ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

          انسان نما نسلیں

            سائنسدانوں کو جنگلوں اور پہاڑوں سے ابتدائی (یا قدیم) انسانی نسلوں کے جو رکازات (فاسلز) ملے ہیں، ان میں پروکا نسل، ہومو ہیبی لس، ہائیڈل برگ مین اور نیندر تھل کے فاسلز قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام نسلیں زمین پر آج سے دو کروڑ سال پہلے سے لے کر آج سے پندرہ بیس ہزار سال پہلے کے زمانے تک یکے بعد دیگرے پیدا ہوئی تھیں۔ ان میں پروکا نسل سب سے پرانی نسل ہے جو دو پائوں پر سیدھاکھڑا ہونے والا جانور تھا جبکہ نیندر تھل وہ آخری نوع ہے جسے باقاعدہ انسان کہا جا سکتا ہے۔ نیندر تھل آج سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے زمین پر نمودار ہوئے اور آج سے پچیس ہزار سال پہلے تک زمین پر خوبصورت زندگی گزارتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیندر تھل اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے موجودہ انسان جیسا ہی تھا۔

          سوانتے پابو کا کارنامہ

            سوانتے پابو کو انسانوں کی اسی ابتدائی اور ناپید ہوجانے والی نسل "نیندرتھال" کا جینوم ترتیب دینے پر نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ کسی جاندار کا جینوم پڑھنے یعنی اس کے جینوم کی نقشہ کشی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اس نوع کا کوئی زندہ خلیہ ثابت حالت میں موجود ہو جس میں اس کا ڈی این اے سالم حالت میں موجود ہو۔ ہزاروں سال قدیم کسی ٹوٹی پھوٹی خستہ ہڈی میں سے جینوم کا حصول اور پھر اس کی نقشہ کشی کرنا بہت زیادہ مشکل کام تھا۔ سوانتے پابو نے یہی ناممکن کام سر انجام دیا ہے۔ انھوں نے ان جینیاتی اختلافات کی نشاندہی کی ہے جو تمام زندہ انسانوں کو معدوم انسان نما نسلوں (extinct hominids) سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان کی دریافتیں اس بات کی کھوج کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں کہ ہمیں کیا چیز منفرد انسان بناتی ہے۔نیندرتھل کے جینوم سے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ جدید انسان کیسے وجود میں آئے۔

          سوانتے پابو کا تعارف

            سوانتے پابو 1955 ء میں اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوئے اور انہوں نے یونیورسٹی آف میونخ  میں تعلیم حاصل کی۔  بعد ازاں انھوں نے اپسالا یونیورسٹی میں مصریات اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ امیونولوجی کے طالب علم کی حیثیت سے اس نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ قدیم مصری ممیوں میں  ڈی این اے زندہ پایا جا  سکتا ہے۔ اس وقت وہ  جرمنی  کے شہر  لائپزگ میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے ارتقائی بشریات (Max Planck Institute for Evolutionary Anthropology)میں ڈائریکٹر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

          سوانتے پابو کی تحقیق کے مراحل

            1990 کی دہائی کے وسط میں، پابو اور اس کی ٹیم نیندرتھل  کے مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے نسبتاً مختصر جزو کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئی۔ نیندر تھل کا یہ ڈی این اے جدید انسانوں کے جینوم سے کافی مختلف تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ نینڈرتھل آج کے انسانوں کے براہ راست آباؤ اجداد نہیں ہیں۔

            چونکہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ڈی این اے کی سلسلہ بندی  کے طریقے بہت زیادہ کارگر ہو گئے تھے، اس لیے پابو نے سیل نیوکلئس میں موجود پورے نینڈرتھل جینوم کو ترتیب دینا شروع کر دیا۔

            سوانتے پابو کی اصل مشکل یہ تھی کہ  ہزاروں سالوں کے بعد، نینڈرتھل کی ہڈیاں بیکٹیریا اور فنگس کے ذریعے اتنی زیادہ آلودہ ہو چکی ہوتی  ہیں کہ ان میں پائے جانے والے ڈی این اے کا 99.9 فیصد تک جرثوموں سے نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ، بقیہ ڈی این اے  کی تھوڑی مقدار صرف چھوٹے ٹکڑوں میں موجود ہوتی ہے جنہیں ایک بہت بڑی پہیلی کی طرح اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ کام حل نہیں ہو سکتا۔

            تاہم پابو  کی ٹیم نے نئے حل نکالے۔ انہوں نے نیندرتھل ڈی این اے کی پیداوار کو بہتر بنایا اور  پیچیدہ  کمپیوٹر پروگرام تیار کئے  جو قدیم ہڈیوں کے ڈی این اے کے ٹکڑوں کا چمپینزی اور انسانوں کے حوالہ جات کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس طرح انھیں  نیندرتھل جینوم کی تشکیل نو میں خاصی مدد ملی۔

            2010 میں سوانتے پابو  اور ان کی ٹیم کئی  ہزار سال پرانی ہڈیوں سے نیندر تھل  کے جینوم کے پہلے ورژن کو دوبارہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ آج کے انسانوں کے جینوم کے ساتھ نیندرتھل کے جینوم کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ جدید انسانوں اور نیندرتھلوں نے تقریباً 50,000 سال قبل اپنےملاپ  میں مشترکہ اولاد پیدا کی تھی،کہ  جب جدید انسان افریقہ چھوڑ کر یورپ اور ایشیا میں پہنچے تھے۔ ماہرین کے مطابق  آج کے غیر افریقی لوگوں کے جینوم میں اب بھی تقریباً دو فیصد نینڈرتھل ڈی این اے موجود ہے۔ اس جینیاتی شراکت نے انسانی ارتقاء کو متاثر کیا اور  جدید انسانوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط کیا۔

            2014 میں، میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے ارتقائی بشریات کی ٹیم نیندرتھل جینوم کو تقریباً مکمل طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سے آج کے انسانوں کے جینوم کے ساتھ اس کا موازنہ ممکن ہو گیا۔ پابو نے کہا، "ہمیں تقریباً 30,000 ایسے مقامات ملے ہیں جن میں تقریباً تمام جدید انسانوں کے جینومز نیندرتھلوں اور  بندروں سے مختلف ہیں۔   انھوں نے مزید بتایا کہ نینڈرتھل آج  کے انسانوں کے قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ جدید انسانوں اور بندروں کے جینوم کے ساتھ ان کے جینوم  کا موازنہ ہمیں اس بات کا تعین کرنے کے قابل بناتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد میں جینیاتی تبدیلیاں کب واقع ہوئیں۔

          جیسا باپ ویسا بیٹا

            سوانتے پابو  کے والد، سونے برگ سٹروم  (Sune Bergström)، کو  بھی 1982 میں  سر جان رابرٹ وین کے ساتھ،  فزیالوجی اور میڈیسن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

          نوبل انعام کے چند دلچسپ حقائق

            فزیالوجی یا میڈیسن کا نوبل انعام سویڈش موجد الفریڈ نوبل کے عطیہ کردہ  پانچ انعامات میں سے ایک ہے۔ یہ سویڈش کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے 1901 سے ہر سال دیا جاتا ہے ۔ فی الحال تو نوبل انعامات کا صرف اعلان کیا جا رہا ہے۔ اصل تقریب ہر سال  10 دسمبر کو( الفریڈ نوبل کی وفات کی برسی پر) منعقد کی جاتی ہے جہاں  یہ سب سے بڑا سائنسی ایوارڈ اسٹاک ہوم میں نوبل ماہرین کو  پیش کیا جاتا ہے۔

 

متعلقہ عنوانات