گوتم بدھ کی زندگی اور فلسفہ حیات کا ایک جائزہ

         سن 563 ق م میں ہمالیہ کے دامن میں کپل وستو کے راجہ شدھودا نا کے گھر میں ایک شہزادہ پیدا ہوا جس کا نام سدھارتھ رکھا گیا ۔ ننھے شہزادے کو شروع سے ہی تلوار بازی اور جنگی فنون سکھائے گئے ۔ اس کے علاوہ اپنے وقت کے دانا استادوں نے اسے مذہب و فلسفے کی خصوصی تعلیم دی ۔ سدھارتھ کا خاندانی نام گوتم تھا،  جو آگے چل کر گوتم بدھ(Gautama Buddha) بنا ۔ گوتم کی شادی ایک خوب صورت لڑکی سے ہوئی ، جس سے اس کے ہاں ایک خوب صورت بیٹا راہول بھی پیدا ہوا۔

          گوتم کی زندگی کا اہم موڑ

            نیپال کی حسین وادی کپل وستو کا شہزادہ بڑی پرسکون اور خوش باش زندگی گزار رہا تھا۔ اس کی طبیعت میں سنجیدگی فکر اور حساسیت کی کثرت تھی ۔ایک دن اپنے حل کے باہر سیر کر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک انتہائی بوڑھے آدمی پر پڑی جورینگ رینگ کر چل رہا تھا ۔ بوڑھے کے چہرے پر  تکلیف کے آثار بہت گہرے تھے ۔ دوسرے دن پھر اس نے ایک بیمار کو دیکھا جو سو کھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ بیمار نہایت اذیت ، تکلیف اور دکھ کی کیفیت سے گزررہا تھا۔ ان دونوں تکلیف دہ مناظر کا درد  اپنے دل میں لیے جب تیسرے دن گوتم با ہر نکالا تو اس نے ایک میت دیکھی ۔ مردے کو قبرستان لے جاتے ہوئے اس کے ورثاء آہ وزاری کرتے ہوئے  اپنا سر پیٹ رہے تھے ۔

            گوتم کے پر سکون دل میں طوفان بر پا ہو چکا تھا۔ اس کے دل میں بڑے بڑے سوالات بچھو کی طرح ڈنک مارنے لگے ۔ ان دکھوں عذابوں ، بیماریوں ، بڑھاپے اور موت کا سبب کیا ہے؟ انسان ان عذابوں سے کیوں گزرتا ہے؟ ان عذابوں اور اذیتوں سے انسان کی جان کس طرح نجات پاسکتی ہے ۔

پاکستان بدھ مت کے مقدس مقامات کہاں کہاں پر واقع ہیں؟ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

          گوتم کی تپسیا ئیں اور ریاضتیں

            زندگی کی رنگینیوں سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کا رخ کرے گا اور ان سوالات کے جوابات تلاش کرے گا۔ رات کے پچھلے پہر وہ اٹھا اور اپنی حسین بیوی اور بیٹے پر الوداعی نظر ڈال کر بیابانوں کا رخ کیا۔ گوتم شہزادے سے جوگی بن گیا۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے ۔ پاؤں ننگے ہو گئے اور بال بڑھ گئے ۔ اس نے ریاضتوں کی انتہا کر دی ، وہ درختوں کے پتوں اور بیجوں پر گزارا کر نے لگا ۔ خوراک گھٹاتے گھٹاتے آخر میں چاول کا ایک دانہ کھانے لگا ۔ وہ جسم کو تکلیف دینے کے لیے اپنے بال نوچتا اور انا کوختم کرنے کے لیے مرگھٹ میں جا کر مردوں کے درمیان سو  جاتا تھا۔اس کی حالت ایک رینگنے والے کیٹرے جیسی ہوگئی ۔ جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا اور خوراک نہ کھانے کی وجہ سے اس کے سارے بال جھڑ گئے ۔ اس نے اس حالت میں چھ سال گزارے۔

          نروان کا مراقبہ

            ایک دن اپنی حالت پر غور کرتے ہوئے گوتم اس نتیجے پر پہنچا کہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ درست نہیں تھا۔ گوتم نے تیاگ ختم کیا اور پیپل کے درخت کے نیچے یو گا کا ایک آسن جما کر بیٹھ گیا اور تہیہ کرلیا کہ جب تک اسے نروان نہیں ملے گا، تب تک وہ اس درخت کے نیچے ہی بیٹھار ہے گا۔ آخر انسانی دکھوں ، عذابوں ، بیماریوں ، بڑھاپے اور موت کا سبب کیا ہے؟ یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا تو اچانک اسے اس سوال کا جواب مل گیا اوراسے نروان حاصل ہو گیا۔ گوتم کہتا ہے کہ "میں نے اپنا ذہن ایک نکتے پر مرکوز رکھا اور مجھے خالص گہری و مافوق الانسانی بصیرت حاصل ہوگئی ، جس سے میں نے خود کو مرتے اور پھر جنم لیتے ہوئے دیکھا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہرجنم میں دکھ، اذیتیں عذاب اور تکلیفیں وغیرہ پہلے جنم سے بھی زیادہ تھیں ۔ ایک جنم کے گناہوں کی سزا، انسان دوسرے جنم میں بھگت رہا تھا۔ بس میں بات سمجھ گیا اور مجھے میرے سوالات کا جواب یہ ملا کہ "انسانی دکھوں کی بڑی وجہ انسانی جنم ہے"۔  نروان حاصل کرنے کے بعد گوتم ، جو اب گوتم بدھ بن چکا تھا، وہ شاگردوں کو با قاعدہ

تعلیم دینے لگا۔

          گوتم کی تعلیم

            اس وقت کے دستور کے مطابق گوتم بدھ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر درس دیتا تھا اور پھر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر جاری رکھتا تھا۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ آخر کار جب و وسفر کر تا تھا تو بارہ سو پیروکار یا بھکشو  بھی ہمراہ ہوتے ۔ مہاویر کی طرح گوتم نے بھی دیدوں کی الوہیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ برہمنوں کے تخلیق کردہ ہیں ۔  وہ ہند و نظام میں مروج پر وہتی نظام کے سخت خلاف تھا، جس میں بابے، مہاراج، پروہت  اور دوسرے مذہبی پیشوا اپنے پیٹ بھرنے کے لیے سادہ و جاہل لوگوں کو بے وقوف بنا کر ، چالاکی سے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔

            اسے جنگ، لڑائی وخون ریزی سے نفرت تھی ۔ اس کا پیغام، محبت کا پیغام تھا۔ حضرت عیسی سے پانچ صدیاں پہلے گوتم نے حضرت عیسی کی ہی بات کی یعنی نفرت کا جواب محبت سے دیں ۔  بحث یا تکراری معاملے میں صبر سے کام لیں ۔ نہ صرف محبت کر یں بلکہ ہر انسان اور دوسرے جانداروں سے ہمدردی و رحم  کا برتاؤ کریں ، ان کی مدد کر میں، ان کے کام آئیں ۔ ایک دفعہ کسی آدمی نے گوتم بدھ سے گالی گلوچ کی ۔ گوتم سکون سے سنتا رہا اور آخر میں کہنے لگا ” بیٹا! اگر کوئی کسی کو تحفہ  دے لیکن دوسرا آدمی تحفہ لینے سے انکار کر دے تووہ  تحفہ کس کا ہوا ؟  تحفہ دینے والے کا ہی ہوگا ۔ اس آدمی نے جواب دیا ۔ بیٹا پھر میں تمہارا دیا ہوا تحفہ قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں ۔ گوتم نے سکون سے کہا۔

          گوتم کے نزدیک دکھوں سے نجات کا راستہ

            گوتم نے اپنی تعلیمات کو موثر بنانے کے لیے ان کو مختلف تشریحات یعنی خلاصوں میں تقسیم کیا۔ گوتم بدھ کے مطابق، دکھ کے محرک اور وجوہات ختم کر دیں تو دکھ ختم ہو جائیں گے۔ یعنی خواہش کا خاتمہ ہی دکھوں کا خاتمہ ہے ۔“  دکھوں کے خاتمے کا یہ عظیم راستہ آٹھ منازل پرمشتمل  ہے جو یہ ہیں : درست نظر ، درست اراده، درست گفتگو، درست رویہ، درست کمائی،  درست کوشش، درست سوچ اور درست مراقبہ ۔

بدھ نے پانچ اخلاقی فرمان جاری کیے، جو کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہیں۔

1۔ کسی جان دار کو ہلاک نہ کر یں ۔

 2۔ جو آپ کو دیا نہیں گیا،وہ ہرگز نہ اٹھائیں۔

 3۔ جھوٹ نہ بولیں ۔

4 ۔ کوئی بھی نشہ آور چیز استعمال نہ کریں ۔

 5۔ بد کاری نہ کر یں۔ پاکبازی اختیار کر یں ۔

گوتم بد ھ کانر وان

            گوتم کی ساری تپسیا اور اس کے اخلاقی نظام کا حاصل  یہ ہے کہ نروان حاصل کیا جائے ، مگر یہ نروان ہے کیا ؟ اسے کوئی حتمی لفظی معنی دینا تو کچھ مشکل ہے مگر اس کا مفہوم واضح ہے ۔ سنسکرت میں نروان کا طالب ہے " بجھا نا اور ختم کرنا"  اور اس کا مفہوم بنتا ہے خواہشات کی آگ کو بجھا نا۔ اس کے دیگر معنی یہ ہیں ، آواگون یعنی دوبارہ پیدائش سے نجات ،انفرادی شعور کا خاتمہ ،مرنے کے بعد خوشی وسکون حاصل کرنا ، اگر ان تمام مفاہیم کو بدھ کے تناظر میں رکھ کر نروان کا کوئی ایک مفہوم واضح کیا جائے  تو وہ ہوگا "ہرقسم کی خواہشات کے خاتمے کے ذریعے  ،ازلی دکھوں سے نجات "۔

گوتم کے آخری ایام

            گوتم بدھ کے خیالات تیزی سے پھیلنے لگے اور یہ ہر جگہ مقبول ہونے لگے جوں جوں اس کی عمر بڑھتی گئی اس کے اندرونی سکون میں اضافہ ہوتا چلا گیا ، جو کہ اس کے چہرے سے ہی ظاہر تھا۔ آگے چل کر جب اس کے پیروکاروں نے اس کے مجسمے  بنائے تو ان میں بدھ کوکسی درخت تلے چوکڑی مارے، آنکھیں بند کیے مراقبے میں بیٹھا کھایا گیا، جس میں اس کے چہرے پر لا فانی و لا زوال سکون جھلک رہا ہوتا ہے۔

            سن 483 ق م میں چہرے پر بے پناہ سکون اور دھیمی مسکراہٹ سجائے تاج و تخت کو ٹھکرانے والا کپل وستو کا شہزادہ اپنے لاکھوں بھکشوؤں کو سوگوار چھوڑ کر 80 سال کی عمر میں اس دنیا کو خاموشی سے الوداع کہہ گیا۔

 گوتم بد ھ کا اثر

            گوتم نے ساری زندگی ہرقسم کی قربانی وعبادت کی مخالفت کی مگر اس کے انتقال کے بعد اس کی ہی پوجا شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ اس کے مجسمے نصب ہو گئے اور بھکشوا سے ایک عظیم نر وان یافتہ اور نجات یافتہ روح سمجھ کر پوجنے لگے۔

            بدھ کے فلسفے کا مرکز انسان ہے ۔ انسان کے دکھ اور ان کا خاتمہ، بدھ کے نزدیک بہت اہم ہے۔ اس کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ اہنسا اور عدم تشدد کا پیغام ہے، مساوات کا پیغام ہے اور پورے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے سچائی ، دیانت داری اور راست گوئی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام تیزی سے ہر طرف پھیلا۔ نیپال و ہندوستان سے ہوتا ہوا موجودہ پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک پہنچا۔ دوسری طرف مشرق بعید سے ہوتا ہوا، خصوصا جاپان و چین میں انتہائی مقبول ہوا۔ پورے ایشیا میں جگہ جگہ بدھ کے آثار موجود ہیں ۔ بدھ مت میں کئی فرقے پیدا ہوئے لیکن نروان ان کا مرکزی نکتہ ہے، جس پر سب متفق ہیں۔ ہندوستان کا عظیم فلسفی شہنشاہ "اشوکا"  بھی بدھ مت کا پیروکار ہو گیا تھا اور  اس نے بے شمار مقامات پر بدھ کے مجسمے نصب کروائے ۔ زمانے کی گرد ہر نظریے کو دھندلا دیتی ہے مگر آج بھی گوتم کے فلسفہ انسانیت ، محبت اورہمدردی کے  کروڑوں پرستار موجود ہیں ۔