زندگی ساتھ فقط دے گی سحر ہونے تک

زندگی ساتھ فقط دے گی سحر ہونے تک
کب یہ سوچا تھا کبھی ملک بدر ہونے تک


کون کب روٹھ گیا کس کو کہاں بھول گئے
آؤ کچھ یاد کریں ختم سفر ہونے تک


چند آنسو جو ترا تحفہ ہے لوٹائیں گے
ہاں چھپا رکھے ہیں آنکھوں میں گہر ہونے تک


مجھ کو کچھ پودوں کا ذمہ جو دیا ہے یا رب
یاد بھی رکھنا ذرا ان کے شجر ہونے تک


آندھیاں آئیں گی طوفان بھی دم توڑیں گے
ہم جیے جائیں گے پھولوں سے ثمر ہونے تک


زندگی میرے تغافل سے تو ناراض نہ ہو
تجھ سے کیا پوچھتا میں اپنی خبر ہونے تک


اس سے اتنا ہی ذرا پوچھ لے کیا بیت گیا
دل یہ کب رکتا ہے پھر آنکھ کے تر ہونے تک


ہم نے چاہت کے کسی ساز پہ جو ہاتھ دھرا
تھم گیا درد ہر اک درد جگر ہونے تک


زندگی تجھ سے محبت تو بہت ہے لیکن
روٹھ جائیں نہ کہیں تیری نظر ہونے تک


چاہ جب آہ سے گزرے تو رشیؔ بن جائے
اور پھر جی لے کسی دشت کے گھر ہونے تک