ہم اگر مارے گئے اپنی جوانی میں کہیں

ہم اگر مارے گئے اپنی جوانی میں کہیں
نام لکھ دینا محبت کی کہانی میں کہیں


کیوں نہ اس بھولے کو یاد آیا بھلا گھر کا پتا
کچھ خطا ہم سے ہوئی یاد دہانی میں کہیں


کون سے دیس سے نکلا تو ہوا پردیسی
ڈھونڈ پرزہ کسی پتلون پرانی میں کہیں


دیس چھوڑا تو ہر اک چیز وہاں چھوڑ آئے
یوں بھی کرتا ہے کوئی نقل مکانی میں کہیں


جن میں محفوظ تھے یادوں کے ذخیرے میرے
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں وہ حرف میں پانی میں کہیں


سارے جذبے بھلا الفاظ میں آتے کب ہیں
ساری باتیں پڑھی جاتی ہیں معانی میں کہیں


تیز رفتار رشیؔ پہلے بھی تھا پر اب کے
کچھ عجب دیس وہ پہنچا ہے روانی میں کہیں