زندگی دھوپ میں بسر کی ہے
زندگی دھوپ میں بسر کی ہے
بات لمبی تھی مختصر کی ہے
آ ہی جائے گا اپنے مطلب پہ
بات پہلے ادھر ادھر کی ہے
سانپ دیکھے ہیں آستینوں میں
کیسی منزل یہ آج سر کی ہے
رنج کو مجھ پہ جو تصرف ہے
ایسا لگتا ہے بات گھر کی ہے
درمیاں کوئی راستہ ہی نہیں
بات اک دوسرے کے سر کی ہے
ایک تصویر کی طرح چپ تھا
اور بات کس قدر کی ہے
زندگی اب بھی ہے صباؔ دل کش
جو کمی ہے تری نظر کی ہے