تم سناؤ گے نویدیں کتنی
تم سناؤ گے نویدیں کتنی
ہم کو تم سے تھی امیدیں کتنی
ہم ہی مقروض تمہارے ٹھہرے
گھر میں رکھیں ہیں رسیدیں کتنی
کتنا باندھوگے ہوا میں گیسو
کہہ بھی دو اور تمہیدیں کتنی
میزباں گھر کی ہوئی ہے مہماں
جان اک جاں سے کشیدیں کتنی
خاک اب ہوگی کھلونوں کی قضا
گو دکانیں ہی خریدیں کتنی