زندان روز و شب میں اسیر حیات ہوں
زندان روز و شب میں اسیر حیات ہوں
اک عمر کٹ گئی ہے مگر بے ثبات ہوں
دیکھو تو ایک ذرہ ہوں اس کائنات کا
سمجھو تو اپنی ذات میں اک کائنات ہوں
تو ماورا عرش و زمین و زمان ہے
میں تیرے اذن کن سے سر شش جہات ہوں
ہیں کعبۂ دروں میں بتان ہوائے نفس
ہر چند کہ میں منکر لات و منات ہوں
چلتی ہوا کے ساتھ تو ابنائے وقت ہیں
میں عہد تیرگی میں چراغوں کے ساتھ ہوں
کیوں تیری زندگی سے نکالا گیا مجھے
کیا میں ترے نصاب کی واجب زکوٰۃ ہوں