شام غربت جو سر صبح وطن ٹوٹتی ہے

شام غربت جو سر صبح وطن ٹوٹتی ہے
دیکھ کے تجھ کو نگاہوں کی تھکن ٹوٹتی ہے


ہنستا رہتا ہوں کہ چھپ جائیں ترے غم کے نقوش
خندۂ لب سے جبینوں کی شکن ٹوٹتی ہے


پا بجولاں رہ پر خار پہ چلنے والوں
کوئی دن اور کہ کانٹوں کی چبھن ٹوٹتی ہے


عشق ثانی میں ہے معشوق گذشتہ کا خیال
وصلت نو پس ہجران کہن ٹوٹتی ہے


گفتگو لمس بھی کرتا ہے سر خلوت شب
خامشی بر سر مضراب بدن ٹوٹتی ہے