زبان حال پہ صبر و رضا کے لہجے میں

زبان حال پہ صبر و رضا کے لہجے میں
نوائے غم ہے ترے بے نوا کے لہجے میں


یہ پائے جبر سے روندی ہوئی تمنائیں
ہیں محو گریۂ پیہم دعا کے لہجے میں


ہوا کا شور گراں ہے سماعت گل پر
سو میں ہوں تجھ سے مخاطب صبا کے لہجے میں


وقار عہد محبت، لحاظ شرط وفا
شکست خوردہ پڑے ہیں انا کے لہجے میں


یہ شعر یوں ہی نہیں معتبر ہوئے لوگوں
وفاؔ کا رنگ ہے ابن وفا کے لہجے میں