زیست کی یوں تو شام تک پہنچے

زیست کی یوں تو شام تک پہنچے
عشق میں پر سلام تک پہنچے


گفتگو جب ہوئی نگاہوں میں
وصل کے ہم پیام تک پہنچے


روز اس کی گلی میں ٹھہریں ہم
کیا پتہ کب وہ بام تک پہنچے


آخرش وہ ہوئے پشیماں ہی
لوگ جو انتقام تک پہنچے


کیوں نہ مل بیٹھ کر صلح کر لیں
مسئلہ کیوں نظام تک پہنچے


راز دل دوست سے بھی مت کہنا
کیا پتہ یہ تمام تک پہنچے


دور جب انتخاب کا آیا
حکمراں تب عوام تک پہنچے


درد کچھ اور دے زمانہ تو
شاعری اک مقام تک پہنچے