زیست کے پیکر میں جب مربوط ہو جاتا ہوں میں

زیست کے پیکر میں جب مربوط ہو جاتا ہوں میں
بن کے دشت لا مکاں لاہوت ہو جاتا ہوں میں


میرے بننے کا تماشہ دیکھیے کہ کس طرح
ٹوٹتا ہوں ٹوٹ کر مضبوط ہو جاتا ہوں میں


جانے کیا پڑھ کر وہ مجھ پر پھونکتا ہے زور سے
دیکھتے ہی دیکھتے یاقوت ہو جاتا ہوں میں


آسماں سے جب اترتا ہوں میں بن کے دیوتا
پھر گناہوں کے تلے ہاروت ہو جاتا ہوں میں


لاکھ چاہوں توڑ ڈالوں ہاتھ ہی اٹھتے نہیں
کچھ بتوں کو دیکھ کر مبہوت ہو جاتا ہوں میں


مرگ مبرم ساتھ لے آتی ہے جب جب زندگی
پھر کفن لوبان اور تابوت ہو جاتا ہوں میں