دل مرا رقصاں ہے جب سے عقل اس شورش میں ہے
دل مرا رقصاں ہے جب سے عقل اس شورش میں ہے
لرزش پا آسماں یا یہ جہاں لرزش میں ہے
آج سے پہلے زمیں کی چال تو ایسی نہ تھی
تم ذرا رفتار دیکھو کس قدر گردش میں ہے
ٹھیک ہے تجھ کو ملا ہے مجھ کو بھٹکانے کا کام
یہ مگر کیا تو تو ہر دم دعوت لغزش میں ہے
کس قدر پھر ایک ہو جاویں زمین و آسماں
ہم زمین و آسماں والے اسی سازش میں ہیں
منتظر ہیں تشنہ لب یہ کوثر و تسنیم کا
ایک زنجیر کشش بھی ساقئ مہوش میں ہے